Posts

Showing posts from July 24, 2017

بم دھماکوں پر ایک نظم

بم دھماکوں پر ایک نظم لفظ نہیں پاس اب احساس بھی نہیں باتیں ہیں کہنے کو بہت ہزار مگر اب بات پھر بھی کچھ کہنے کوہے نہیں لاشیں،جنازے اور یہ دھماکے ہیں جی تو کرتا ہے پکڑلوں تم لوگ کے گریباں مگر کیا کروں،میں اہل قلم ہوں کوئی تشدد پسند تو تم سا نہیں تم حاکم، تم غاصب،تم اہل عقل کُل یہ معصوم جنازے،یہ سوال کچھ بھی نہیں تم اور اہل ِڈی ایچ اے رہے خوشحال یہ عوام کیڑے مکوڑے، اور کچھ بھی نہیں کراچی،لاہور،پشاور،کوئیٹہ،یا قبائل یہ سب فقط ہیں شہیدہونے کو مگر میرے یہ محافظ کے سالار یہ اہل زبان ہیں فقط،اور کچھ بھی نہیں جنازے میرے لوگ اٹھاتے ہیں روز تم کو ہو غور وفگر کا شوق تو یہ چند شرپسند تمھارے آگے پھر کچھ بھی نہیں کبھی ڈالر،کبھی ریال تو سی پیک مگر ان انسانوں کی جانیں تمھارے لئے کچھ بھی تو نہیں سوال اٹھاؤں گا تو مارا جاؤنگا میں تمھارے اگر عقیدے پر نہیں تو میں کچھ بھی تو نہیں آگ لگادوں میں الفاظ سے اگر مگر تم پر اثر کیا ہوگا بھلا کچھ بھی تو نہیں تحریر:محسن علی

محبت اور فلسفہ محبت ؟

محبت اور فلسفہ محبت ؟ محبت یوں تو کہنے کو فقط الفاظ ہیں مگر اس کے معنی کیا ہیں ؟ کیا یہ جذبہ وجود رکھتاہے ؟ کیا اس کو ہم ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ آج کا دور ثابت کرنے کا دور ہے عقلی دلیل سے ک،یا لوگ محبت میں مر کر اس کو ثابت کرسکے یا محبت فقط ایک خوبصور لفظ ہے اور کہیں وجود نہیں رکھتا. میں کہوں گا محبت کائنات کی بنیاد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں سب چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں، اس جُڑے رہنے کا نام محبت ہے جس کی وجہ سے کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اسی کی وجہ سے اس کے سب رنگ اونچائیاں گہرائیاں زمین کا ٹھہراؤ سب کے میل جول سے کائنات ہے . اگر اب اگر اس لفظ محبت کو انسانی جذبات کے سانچے میں رکھ کر جانچیں تو دیکھیں کہ جب ماں بچے کو گود میں لیتی ہےاپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے،اسی طرح دیگر لوگ اسے اپنی گود میں لے کر اپنا احساس دلاتے ہیں ،جبکہ اجنبی لمس پاتے ہی بچہ رونے لگتا ہے۔یعنی اپنائیت کا احساس محبت ہے . اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک جنس کا دوسری جنس کے احساس کو قبول کرنے کا نام محبت ہے . دیکھا جائے تو پھول کا ٹہنی کانٹوں و پتوں کے درمیان کھلنا یعنی سب کی محبت

احساس ...!

!احساس۔۔۔ احساس یہ لفظ جتنا گزشتہ دس سالوں میں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھا ہے اتنا احساس لوگوں میں جاگا نہیں ہے وجہ کیا ہے ایسا کیونکر ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سی بڑی بڑی باتوں کا احساس کرکے سمجھتے ہیں ہم حساس ہیں اور احساس کرنا جان گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان بڑی باتوں پر احساس دکھلادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے فلاحی اداروں میں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ان کام کرنے والوں میں احساس ہوتا ہے مگر ان ہی لوگوں کا برتاؤ اپنے ہی لوگوں سے بے حس طرز کا ہوتا ہے ۔یہی حال معاشرے کے تمام تر انسانوں کا ہے ایک طرف حکومت کو گالیاں دے کر لوگ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خود اپنے رویوں اور لفظوں اور لہجوں پر غور نہیں کرتے کیا آپ کسی کو گالی دے کر احساس دلاسکتے ہیں ؟ یہ آپ اُس کی تذلیل کریں گے یا اس کو کچھ سمجھائیں گے ؟ کیا غصے کی حالت میں انسان سمجھ سکتا ہے ؟کیا ضروری ہے فقط دوسروں کو احساس دلایا جائے اور اپنا احساس نہیں دیکھا جائے جس طرح دوسروں سے مخاطب ہوتے کیا آپ سے اس طرح کوئی مخاطب ہو تو آپ کو اچھا لگے گا ؟ دوستی میں یہ سب چلتا ہے کیوں دوست بے حس ہوتے ہیں؟ گھر می

"روز"

"روز" میں ٹوٹا ہوا آسمان سے آگرا ہوں  نہ جانے میں کس جُرم کی سزا ہوں  ہوں تو سلامت مکمل کہنے کو  پھر بھی اپنے آپ میں تنہا ہوں  یہ تنہائیاں اور وحشتیں ہیں ایسے  کہ خود میں سمٹ کر ٹوٹ گیا ہوں  ایک پیاس ہے اس روح کو عجب سی  تیرے خیالوں سے روح معطر کرہا ہوں  نہ جانے کیونکر آئی ہے تو زندگی میں  تیری حسرت لئے میں روز مررہا ہوں  یوں تو ایک میں ہی گمراہ نہیں ہوں  پھر بھی انجان آس لئے دعا کرہا ہوں  تجھ کو مجھ سے نہیں کوئی محبت  روز کیوں تیرے ہی خواب دیکھ رہا ہوں  یہ محبت یہ عشق یہ کوئی پاگل پن  نہیں مجھے یہ سب کچھ معلوم مگر  تیرےواسطے میں اپنی ذات سے لڑ رہا ہوں  تم نہ ملی تو نہ جانے جیوں گا بھی کیسے  میں یہ سوچ کر روز پھر مررہا ہوں تحریر:محسن علی

بھابی و دیور

بھابی و دیور  اگر اس رشتے کی بات کی جائے تو یہ بہت پیارا تو کبھی خوفناک دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کے گرد نظر ڈالیں اور اس میں شک کی گنجائش زیادہ اور یقین کم ہوتا ہے دو بھائیوں کے درمیان اور مائیں بھی جو بیٹا دیور ہوتا ہے اسکو بار بار محتاط ہونے کی تنبیہ کرتی ہیں مگر میں آپ کو بتانا چاہونگا ۔اپنی زندگی کے حوالے سے، آپ یقین کریں نا کریں ۔دو ہزار پانچ میں میں اس فلیٹ میں شفٹ ہوا جس میں آج تک رہ رہا ہوں۔ یہاں فلیٹ کے لڑکے سمجھ نہیں آئے تو لہٰذاکیفے پر ایک لڑکے اصغر سے دوستی ہوگئی اور اتنی گہری ہوگئی کہ اسکے گھر آنا جانا کھانا پینا کبھی سوجانے تک۔ وہ بھی سامنے فلیٹ میں ہی رہتا روڈ پار مگر خاص بات یہ تھی کہ میری اسکے سب گھروالوں سے بہت اچھی بات چیت تھی ۔بھابی، بھابی کم بالکل ماں کی طرح۔ کسی وقت بھی بے دھڑک چلے جاو دروازہ کھلا ہو یا بند یوہی اندر گھس جاو اتنی بے تکلفی تھی۔ پھر یوں ہوا ایک بار والد صاحب نے حسب روایت گھر سے کسی بات پر نکال دیا ۔رات تین بجے تو انکے گھر گیا اصغر نہیں تھا ۔بھابی نے دروازہ کھولتے ہی پوچھابیٹا کہاں سے آرہے ہو، تھکے ہوئے ہو کھانا لاوں آو سوجاو آرام س

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی یہ کہانی دو ایسے اچھوتے دوستوں کی ہے جو کبھی ملے نہیں مگر ان میں جتنا اختلاف تھا اتنا اتفاق بھی ،وہ دونوں واقعی میں دو جسم ایک جان جیسے دوست تھے۔ ان کی دوستی ذہنی طور پر اتنی مضبوط تھی کہ حیرانی ہو ۔مگر ان کے درمیان رابطہ کا ذریعہ فقط سوشل میڈیا یا کمیونیکشن رہا تھا مگر دونوں کی زندگی کے تجربات میں ایک سی اذیتیں تھیں ۔ ایک کا نام عتیقہ اور ایک دوسرے کا نام مہتشم ۔ تقریبا ًوہ دونوں دیکھنے میں عام انسانوں کی مانند مگر عتیقہ بے حد مضبوط اعصاب کی اور دوسرا بات بے بات پر رودینے والا جذباتی طبیعت کا مگر وہ بس چند دوستوں تک ہی محدود سوشل میڈیا پر ہوکر رہ گیا تھا۔ اس نے ارادہ بنالیا تھا کہ اپنی محبت کو اب کہ نا حاصل کرسکا ۔ وہ ملے تو آگے زندگی اور نہ ملے تو موت طے کرچکا تھا مگر اس کے سب دوست سوائے اس کی ایک دوست عقیقہ کے سب اس فعل کو برا جانتے تھے مگر وہ جان گیا تھا ۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ ذہن و روح کی صدیوں کی پیاس وہ بجھا سکے گا اور اگر نہ پاسکا تو بھٹکتا رہے گا ۔عمر بھر اس کا یقین پختہ ہوگیا تھا ۔ آخر وہ بہت کوششوں کے بعد اُس لڑکی ج