written by ابو علیحہ
مہاجر ۔۔۔۔۔ گالی سے نعرے اور پھر پہچان تک (نشر مکرر) 1 ۔ 65 سال ہوگئے یہ سالے ابھی تک خود کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟ اگر میں بنگالی ہوتا تو گیلالتر مار کر اس کا جواب دیتا لیکن ہندکو ہوں اسلئے زبان سے ہی بتاتا ہوں۔ جماعت اسلامی کے ترچھی ٹوپی والے سراج حق ، دیر میں جاتےہیں اور کہتے ہیں، پختونوں کا استحصال نہیں ہونے دینگے جمیعت علمائے اسلام کے غفور حیدری کوئٹہ میں فرماتے ہیں، بلوچوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیںبنی گالہ کے کوکین زدہ مہاتما ، کبھی آدھا مہاجر، آدھا پٹھان، آدھا پنجابی، آدھا بندر اور وٹ ناٹ بن جاتے ہیںاے این پی کے کسی دیوار سےٹکرائے ہوئے رکشے کے منہ والے شاہی سید ، جاگ پختون جاگ کا نعرہ لگاتے ہیںسندھ میں جسقم، جسمم اور پتا نہیں کون کون سی مم مم سندھو دیش کا تان پورہ بجاسکتے ہیں۔لیکن یہ مڈل کلاسیا خود کو مہاجر نہ بولے، نوشے میاں وہ بیچارا تو سال دو سال بعد بھول جاتا ہے کہ وہ مہاجر ہے ، پھر آپ آجاتے ہو کبھی ان کی ٹانگیں توڑتے ہوں، کبھی ان کے جسم چھلنی کرتے ہوں، کبھی ان کے لئے نوکریوں کے دروازے بند کرتے ہوں، گھر سے اٹھا کر مسخ شدہ حالت میں سڑک پر پھینک دیتے ہوں۔ دروازہ ت...