written by ابو علیحہ

سانحہ قصبہ و علیگڑہ کالونی (محمد دانش کی چشم کشا تحریر)----------------------------------کھینچو چیمبر مارو برسٹحق پرست حق پرستصاحبو ! یہ کوئی عام سا سیاسی نعرہ نہیں ہے۔۔ اس نعرے کے پیچھے ہے ایک بیان۔۔۔ اور اس بیان کے پیچھے ہے ایک بارود سے بھری ہوئی اور خون میں نہلائی ہوئی داستان۔۔۔ بیان ہے الطاف بھائی کا۔۔۔ شہرہءآفاق۔۔۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "اپنے گھروں کے ٹی وی اور فریج بیچو۔۔۔ اسلحہ خریدو۔۔ خواتین اپنا زیور بیچیں، اسلحہ خریدیں اور اپنی حفاظت کا بندوبست کریں" بقول شاعر خون آنکھوں کے چراغوں میں جلا لو ورنہتیرگی شہر سے رخصت نہیں ہونے والیاب کے جو معرکہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگاہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والیلیکن سوال یہ ہے کہ اس بیان یا اس قسم کے اشعار کے پیچھے داستان کیا ہے؟؟ کوئی بھی شخص اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ ایک دن صبح اٹھے اور اچانک ہی ایسے بیان دینے شروع کر دے۔۔۔ اور اگر کوئی ہو بھی تو کم از کم عوام کی اکثریت اتنی بیوقوف نہیں ہوتی کہ واقعی زیور بیچ کر کلاشنکوف خرید لے۔۔۔مگر ایسا ہوا۔۔۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔۔ لوگوں نے ٹی وی بیچے، فریج بیچے۔۔۔ عورتوں نے زیور بیچا۔۔۔ اور اسلحہ خریدا۔۔۔ مگر کیوں؟؟ آخر اسکی وجہ کیا تھی؟؟اسکی وجہ تھی عدم تحفظ کا وہ احساس جو 14 دسمبر 1986 کی کوکھ سے پھوٹا تھا۔۔ اب آپ پوچھیں گے ایسا کیا ہوا تھا اس تاریخ کو؟؟؟ تو سُنیں !!سین کچھ یوں تھا کہ 12 دسمبر کو حکومت نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں (جسے حرفِ عام میں منی افغانستان کہا جاتا ہے) ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا۔۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک شاندار ترین آپریشن تھا ۔ اتنا شاندار کہ ڈان اخبار کے مطابق اس آپریشن میں صرف ایک کلاشنکوف اور 60 کلو ہیروئین ہی برآمد ہو سکی۔۔۔وائس آف امریکہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا "جب سہراب گوٹھ میں ناجائز اسلحہ اور منشیات کے خلاف ایکشن لیا جارہا تھا اس سے ایک روزقبل ہی منشیات واسلحہ فروش اپنا مال سہراب گوٹھ سے کہیں اور منتقل کرچکے تھے"۔ بی بی سی کے مطابق اسلحہ اور منشیات کی تلاش کیلئے سہراب گوٹھ میں غیرقانونی اسلحہ اور منشیات کے اڈے کے خاتمے کے آپریشن کے دوران علاقے کے لوگوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ اس کاروبار میں ملوث گروہوں کو پہلے سے خبردار کردیا گیا تھا۔بدقسمتی سے اس نام نہاد آپریشن کی مخالفت میں پختون ایکشن کمیٹی سامنے آئی اور آپریشن (جو کہ اصل میں ہو ہی نہیں رہا تھا) بند کرنے کا مطالبہ کیا۔۔ اور کاروائی نہ روکنے پر غیر معینہ مدّت تک پہیہ جام ہڑتال کرنے کا اعلان کیا گیا۔۔۔ کراچی میں مقیم کچھہ پشتون گروپس الآصف اسکوائر میں کسی بھی آپریشن کو پشتونوں کے خلاف سمجھتے تھے۔لینڈ مافیا ، ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ یہ آپریشن پشتونوں کے خلاف ہورہا ہے جب کہ یہ آپریشن صرف مجرموں کے خلاف تھا۔کسی بھی ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لیئے تقریبا ہر علاقے میں فوج اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔قصبہ علی گڑھ ایک بہت زیادہ کشیدگی والا علاقہ تھا یہاں کم از کم 2 مکمل طور پر مسلح فوجی یونٹوں کو تعینات کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ پولیس کو بھی ہائی الرٹ کیا گیا تھا۔اس کے دو دن بعد قصبہ اور علیگڑھ میں لوگ اپنے سیکیورٹی اداروں پر بھروسہ کیئے اپنے حال میں مست سوئے پڑے تھے، اس حقیقت سے بے خبر کہ قیامت ان کے سروں پر ٹوٹ پڑنے کو تیّار ہے۔۔14 دسمبر 1986 کو ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا کے افراد قصبہ و علیگڑھ پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے۔۔ اس میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ مساجد کے لاؤڈ سپیکرز سے باقاعدہ پشتو میں اعلانات کیئے گئے کہ مہاجروں کے خلاف جہاد فرض ہوگیا ہے۔۔۔ نکل آؤ اپنے اپنے گھروں سے۔۔ ان بیانات کی ویڈیو ریکارڈنگز آج بھی یو ٹیوب پر بآسانی دستیاب ہیں۔آتشیں اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔۔ دکانوں اور گھروں کو جلایا گیا۔۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ چند ہی گھنٹوں میں لگ بھگ 400 کے قریب مہاجر جاں بحق و زخمی ہوئے۔۔اس سانحے میں زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے ان الفاظ میں اخبار کو بیان دیا " وہ ہمارے گھر کے اندر داخل ہوئے اور ہمارے مردوں کا پوچھا۔انہوں نے بندوق اور چاقو سے میرے بھائی اور میرے باپ کو قتل کیا اور الله اکبر کا نعرہ بلند کیا جیسے ہم کافر ہیں"محمد ابراہیم جو خوش قسمتی سے اس سانحہ میں زندہ بچ گیا تھا۔اس نے بتایا،”وہ ہمارے گھر داخل ہوئے اور ہمارے بچوں کو لات ماری ، ہماری عورتوں سے ریپ کیا اور ہر کسی کو ماردیا جو ان کے سامنے آیا"اس دن قصبہ علی گڑھ میں چار سو سے زائد مہاجر مردوں اور عورتوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔کسی کو چاقو سے ذبح کردیا گیا یا کسی کو زندہ جلا دیا گیا یا بندوق سے گولی ماردی گئی اور کسی نے ان کو نہیں روکا۔ صبح گیارہ سے ساڑھے تین بجے تک قتل اور غارت گری جاری رہی۔پوری بستی لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے رحم اور کرم پر تھی۔ان کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار اور کلاشنکوفیں تھیں جس سے وہ مہاجر آبادی پر اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے۔حملہ آوروں نے گھروں کو اس طرح آگ لگائی تھی کہ ہر طرف آگ کے شعلے نظر آرہے تھے۔قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ہر سڑک پر لاشیں اور زخمی نظر آرہے تھے۔عورتوں اور بچوں کی دلخراش چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔سیکڑوں دکانوں کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا۔مزے کی بات یہ ہوئی کہ ہائی الرٹ کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے غائب رہے۔آرمی کے وہ دو یونٹ جو قصبہ علی گڑھ کے علاقے میں تعینات کیئے گئے تھے اس سانحےسے صرف دو گھنٹے پہلے مکمل طور غائب ہوچکے تھے نہ تو آرمی کے یونٹ نظر آئے اور نہ پولیس جب کہ تھانہ صرف ایک کلو میٹر دور تھا۔ظالم اپنا ظلم کرتے رہے۔ انسانیت سسکتی رہی اور درندے اپنی سفاکیت دکھاتے رہے۔ کوئی ان کو روکنے والا نہیں تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرمی کے دو یونٹ اچانک کیوں غائب ہوگئےتھے؟ دہشت گرد کئی گھنٹوں تک مہاجروں کا قتل عام کرتے رہے گھروں اور دکانوں کو آگ لگاتے رہے مہاجر عورتوں کی عزتیں لوٹتے رہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح غائب رہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب۔ایسے اور اس قسم کے دیگر سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے جیسا کہ ہمارے ملک میں روایت ہے۔۔ اس کیس کی بھی عدالتی انکوائری ہوئی، اور مکمل رپورٹ پیش ہوئی۔ مگر پھر اس رپورٹ کو اس نام پر شائع کرنے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ اس سے پاکستان کی ایک بڑی کمیونٹی کی دل آزاری کا خدشہ تھا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس لکھتے ہیں,”یہ بد ترین قسم کا قتل عام ہے جو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔مہاجر کمیونٹی کے مردوں، خواتین اور بچوں کو کس بیدردی سےغیر قانونی تارکین وطن نے ذبح کیا۔کور کمانڈر سے پوچھنا چاہیے کہ کیوں انہوں نے اس سانحہ سے پہلے 2 گھنٹے فوج کووہاں سے بلالیا تھا۔یہ تو واضح طور پر ایک فاؤل پلے لگتا ہے"آج تک اس سانحے کے کسی بھی قاتل کو نہ پکڑا گیا، اور نہ انہیں سزا دی گئی۔ اور نہ ہی ان علاقوں میں کوئی کاروائی کر کے اسلحہ سے انہیں پاک کیا گیا۔ بلکہ کراچی کی پہاڑیوں کے نیچے موجود اس نہتی شہری آبادی کو مکمل طور پر ان جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں یرغمال بنا کر چھوڑ دیا گیا۔ جی ہاں، نیچے موجود مہاجر آبادی مکمل طور پر "یرغمال" تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم کے پاس اسلحہ کے نام پر ایک پستول تک نہیں تھا۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب الطاف حسین نے کال دی کہ عورتیں اپنا زیور بیچیں اور اسلحہ خریدیں اور اپنی حفاظت کریں اور خود کو کسی صورت یرغمال نہ بننے دیں۔ اس قطعہ کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں : بند کمروں کی سیاست مجھے منظور نہیں میں جو بھی بات کہوں گا سرِ بازار کہوں گاتم رات کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گےمیں صبح کے اخبار کی سُرخی میں ملوں گانوٹ : یہ تصویر 15 دسمبر کے جنگ اخبار کی ہے۔۔ اس میں ہلاکتوں کی تعداد 50 لکھی ہے جو کہ سرکاری تعداد ہے حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک تھی۔۔ 16 دسمبر کے جنگ اخبار میں مزید 45 افراد کے جاں بحق ہونے کی بھی خبر لگی تھی۔۔ مگر اس اخبار کا امیج نہیں مل سکا ۔۔اور یہ کہ اس تحریر کی تیّاری میں علامہ گوگل رحمۃ اللہ علیہ کی بھی مدد لی گئی ہے۔۔ اور جسٹس سجاد علی شاہ کا بیان علامہ وکی پیڈیا سے حاصل کیا گیا ہے۔۔Thanks to Abu Aleyha ابو علیحہ 

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"