Posts

Showing posts from July 18, 2018

"غریب کون"

جس کے جواب کے بدلے خاموشی ہو مُفلس وہ جو اپنے کی آواز کو ترس جائے جو غریب تُم جانتی ہو کسی بھوکے کو مُفلس جو تُم مانتی ہو میں اسے غریب نہیں جانتا میں بھوکے کو مُفلس نہیں مانتا اندر سے جو خالی ہو محبت کا سوالی ہو لفظوں کا بھوکا ہو آواز کا ترسہ ہو لبوں کا پیاسہ ہو مُسکراہٹ کی خواہش ہو لمس کی چاہت ہو مگر کُچھ بھی نہ ہو پر سانسوں کی قید ہو جبر کی زندگی ہو میں ہر ایسے شخص کو مفلوک الحال مانتا ہوں اُسے میں غریب و مفلس جانتا ہوں تُم کیا سمجھو بھلا اس غرُبت کی کمائی کو جو صرف محبت جانتی ہو محبت کو خُدا مانتی ہو میں اُسے غریب کہتا ہوں اُسے نادار جانتا ہوں جو جھولی میں گرادے چند سکے لفظوں کے وہ میری جانب سے جنت کا حقدار ہے مُحبت ملے اُسے اُسکی وہ محبت کا قرضدار ہے غُربت تو یہی ہے بس مُفلسی روح بھی یہی یہ غُربت کی پہچان ہے یہ مفلس روحوں کا حال ہے محسن علی

"خواب"

میں نے نوچیں ہیں خواب آنکھوں سے میں نے ہی موت کو مارا ہے یہ زندگی اذیت ہے ایک مسلسل میں نے اسے محبت میں گزارا ہے محبت نہیں تُم کو مجھ سے جانتا ہوں  پر زندگی کا ہر پل میں نے تُم پر وارا ہے جانتا ہوں بیزار ہو تُم اس لفظ مُحبت سے مگر سچ ہے تُم نے بھی کسی کو ہارا ہے یہ وقت بڑا ستم گر ہے میری جاناں تُمھیں وقت نے مُجھے حالات نے مارا ہے یوں تو نہیں دیا تُم نے اس تعلق کو کوئی نام مگر کیا یہ سچ ہے تُم کو بھی یہ تعلق پیارا یے کہا تھا کبھی کسی روز تُم نے مُجھ سے سوچوگی اس بارے میں فی الحال دوستی پر گزارا ہے پہلے ملو مُجھ سے دیکھو مُجھے پھر ہی کوئی چارہ ہے یوں تو گزر گئے ہیں تین سال درمیان ہمارے مگر یہ دل تو محبت کا مارا ہے مُحسن علی

"آزاد"

سنو میں ایک آزاد ہوں ایک آزاد انسان ایک آزاد سوچ ایک آزاد خیال ایک نیا خواب  میں آزاد ہوں اس قدر کہ بس میں آزاد نظم کہنا چاہتا ہوں ایک بالکل آزاد نظم جس میں قافیہ ردیف مصرعے کی حد بندی ان سب کی قید سے آزاد میں چاہتا ہوں دُنیا آزاد ہوجائے ان نوحوں و سوگ سے زندگی کے روگ سے موت کے خوف سے لفظوں کی قید سے آزاد ۔۔۔بالکل آزاد۔۔۔ جہاں جسم یکساں رقص کرسکیں جہاں موسیقی کی دُھن ہو جہاں رنگوں کا پیرہن ہو جہاں نظریات کی کوئی جنگ نہ ہو جہاں نفرتوں کے رنگ نہ ہوں جہاں جھنڈوں کی یلغار نہ ہو جہاں سرحدوں پر تلوار نہ ہو جہاں زبان کے غازی سی گفتار نہ ہو ہاں آزاد بالکل آزاد مگر میں خود تُم میں قید ہوگیا ہوں خود کے دُکھ و درد سے آزاد ہوگیا ہوں لگتا ہے تُمھارے جسم میں میں اُتر چُکا ہوں میں خود سے آزاد ہوچکا ہوں آو میں تُم کو آزادی دوں ہاں آزادی ۔۔۔ہاں ۔۔آزادی مُحسن علی

"آخری الیکشن"

کہیں خاموشی سے کچُھ گولیاں آئیں میرے سینے کو چیر کر جائیں میرے لہو کو بکھیرتی جائیں ایک عُمر سے ہوں میں اذیت میں اس زندگی کی مُصیبت میں ہر سانس اب کرب دیتی ہے نفرت ہے مُجھے اس زندگی سے جو نہیں ملی مُجھے خوشی سے اس الیکشن کی رنگا رنگی میں اگررنگ جاوں میں مٹی میں تنگ نہ ہوگی پھر وہ مُجھ سے جان چھوٹے کی اُس کی مُجھ سے یوں تو خود کو میں مارسکتا ہوں کیا کروں اُس سے عہد کیا ہوں ختم نہ کرونگا میں خود کو روز مرونگا میں یوں تو روز جیونگا تُم کو اس الیکشن کو اب ہوجانے دو مُجھے زندگی سے سب کی تُم جانے دو تُمھارے لبوں کی خاموشی مُجھے روز کاٹتی ہے کس قدر مُجھ کو مُحسن علی

"مُسرت"

دوست کہتے ہیں نظم لکھو محسن پورے درد سہہ کر مُسرت بھری نظم کیسے لکھ لوں میں  وہ الفاظ وہ جذبات جو محسوس نہ کرسکوں کیسے لکھوں وہ جو میرا گماں و خیال نہیں بھلا کیسے میں ویرانی کو میں گلزار لکھوں نظم لکھوں مسرت کی ؟ منافقت کرلوں لکھنے میں مگر کیسے ۔۔ جو دل و ذہن میں نا ہو کیسے وہ لمحہ جو جیا نہیں اُسکا حق ادا کیا نہیں وہ مسرت بھری نظم میں اُسکی خوشی دیکھے بنا کیسے لکھ لوں میں ؟ مُحسن علی

"تصویر"

نظم تصویر بعد میں آئیگی ساتھ ہاں یہ نیلا رنگ کافی دنوں بعد   میں نےکسی محفل میں پہنا آج   میں بھول گیا تھا یہ میرا من پسند رنگ   ایک روز جب اُس نے بتلایا نیلا پسند ہے   بس اُس ہی ہفتے نیلے رنگ دو شرٹس لے ڈالیں   اس نیلے رنگ میں بہت گہرائی چُھپی ہے   درد کا رنگ بھی نیلا اور آسماں کا بھی   کتنی عجیب بات ہے نا یہ   نیلا سمندر بھی   اصل میں نیلا رنگ نہیں پہننا میں نے   بس اُس کو اپنے سینے سے لگالیا ہے   آخر اُس کی پسند جو ہے نیلا رنگ   تصویر نہیں یہ اصل تصویر نہیں میری یہ تو اُسکی خاموشی سے میرے درد کا عکس ہے   جو اس تصویر کی صورت آگیا ہے   چہرہ نہیں پسند اپنا اب مُجھے   جب سے اُس نے مُجھے ٹُھکرادیا ہے   بس اس نیلے رنگ میں میری مُسکراہٹ   اور   چُھپا اس میں میرا درد شائد وہ دیکھ لے   بس یہی اس تصویر میں کہنا ہے اُس سے   تُم نیلے میں آسماں کی طرح لگتی ہو       جبکہ میں نیلے میں درد کی داستان مُحسن علی

"خدایا"

دیکھو یہ آج مُجھ سے کون ملنے آیا ہے   آسماں سے اُتر کر خُدا آج خود آیا ہے   عجب ہی بات ہے وہ کُچھ   چُپ ہی آیا ہے   خُدا مُجھ سے کلام کرنے آیا ہے   میرے ہی ایک پہلو میں اُسکا ایک سایہ ہے   دیکھوں میرے سوالوں کا جواب دینے وہ آیاہے   میرا دُکھ سن کر وہ کہاں مُسکرایاہے  زندگی کی حال سُن کر وہ کہاں رو پایا ہے   میں نے جب پوچھا کیا تو ہی رب و خُدایا ہے   شش و پنج میں رہا کچھ دیر پھر بولا   کیا مُجھ سے پہلے بھی یہاں کوئی آیا ہے   بات کی مُختصر میں نے   تُو نے مُجھے   خوشی کیوں نہ دی یوں ترسایہ ہے   اُس نے کہا تیرا عشق ہی تو تیری ذات کا سایہ ہے   میں نے کہا تُو نے کہاں اُسکو میرا بنایا ہے   اُسکے دل میں کسی اور کی کیوں چھایا ہے   خُدا نے کہا میں نے ہی تو اُسے عشق کا خُدا بنایا ہے عرض کیا میں نے کیا زندگی میں میری تاریکیوں کا ہی سایہ ہے   نہیں دے سکتا مُجھے تو اگر میری خوشی   پھر جا نہیں تو میرا آج سے کوئی خُدایا ہے   لے جا ساتھ میری یہ جان یہاں سب مایا ہے   تُو بھی کس قدر بے بس اے خُدایا ہے مُحسن علی

"سمندر"

تُم نے کبھی سمندر دیکھا ہے کتنا عجیب ہے نا یہ بھی   وہ ۔۔۔۔کیسے ؟   کبھی ایک دم خاموشی   کبھی ایک دم شور   تو کبھی شوقی دکھاتا   کبھی تن بھگوتا ہوا   تو کبھی من بھگوتا ہوا   کبھی بپھرا ہوا طوفان   جیسے زندگی سے پریشان   بالکل میرے جیسا   ایک ادھوری زندگی جیسا   اور   ہاں کبھی رات کو نیلا ہوجاتا   جیسے ہجر کے درد سے نیلا ہوگیا ہو   تو میری طرح سر پٹختا رہتا ساحل پر   جیسے میں مُحبت کی دہلیز پر روز   اپنا سر پٹختا رہتا ہوں   ایک پہیلی سی ہے سمندر   اس کی گہرائی میں کیا ہے   میرے اندر کیا ہے جیسے کوئی نہیں جانتا   شائد اس کی گہرائی میں مُحبت ہے   تب ہی اس کی لہریں ساحل پر   روز یوہی سر پٹختی ہیں   شائد سکون مل جائے   کوئی سہارا مل جائے   ایک فلسفہ سمندر زندگی کا   ہاں ! شائد تُم ٹھیک کہتے ہو   ایک عجیب سکون دیتا ہے یہ سمندر   شائد ہم جیسا ہے یہ سمندر مُحسن علی

"زندگی کا سفر"

کتنا کٹھن و تھکادینے والا ہے سفر کتنا بے رنگ ہے نا جوانی سے بُڑھاپے کا سفر شادی رشتوں کا بندھن رفتہ رفتہ خود کو بدلنا پھر ایک دن اچانک خود کو بوڑھا دیکھنا محسوس ہونا رفتہ رفتہ جو آپ کا تھ ا عمر بھر اب وہ آپ سے دور ہوتا محض اسلئے اب جوبن نہیں م رد ہے تو کیا اُسکا شریر بوڑھا نہیں ہوا وہ کیوں کر اب رات باہر کاٹتا ہے کبھی رات بھر وہ مُجھ میں گُم رہا کرتا تھا کیا اب میں بُری ہوگئی ہوں کاش میرا کوئی بچہ ہوتا مگن ہوجاتی اُس میں مُجھے اب نفرت ہوتی ہے اُس کی کتابوں اور دوستوں سے مُجھے وحشت ہوتی جب وہ مجھے بھول کر چھُوتا انگاروں میں سُلگتی ہوں روز مرتی جیتی ہوں زندگی کا بے تُکاں سفر ی ہ ختم کیوں نہیں ہوتا میرا یہ بدن پھر جواں کیوں نہیں ہوتا مُحسن علی