"غریب کون"


جس کے جواب کے بدلے خاموشی ہو
مُفلس وہ جو اپنے کی
آواز کو ترس جائے
جو غریب تُم جانتی ہو
کسی بھوکے کو مُفلس
جو تُم مانتی ہو
میں اسے غریب نہیں جانتا
میں بھوکے کو مُفلس نہیں مانتا
اندر سے جو خالی ہو
محبت کا سوالی ہو
لفظوں کا بھوکا ہو
آواز کا ترسہ ہو
لبوں کا پیاسہ ہو
مُسکراہٹ کی خواہش ہو
لمس کی چاہت ہو
مگر
کُچھ بھی نہ ہو
پر سانسوں کی قید ہو
جبر کی زندگی ہو
میں ہر ایسے شخص کو
مفلوک الحال مانتا ہوں
اُسے میں غریب و مفلس جانتا ہوں
تُم کیا سمجھو بھلا
اس غرُبت کی کمائی کو
جو صرف محبت جانتی ہو
محبت کو خُدا مانتی ہو
میں اُسے غریب کہتا ہوں
اُسے نادار جانتا ہوں
جو جھولی میں گرادے
چند سکے لفظوں کے
وہ میری جانب سے
جنت کا حقدار ہے
مُحبت ملے اُسے اُسکی
وہ محبت کا قرضدار ہے
غُربت تو یہی ہے بس
مُفلسی روح بھی یہی
یہ غُربت کی پہچان ہے
یہ مفلس روحوں کا حال ہے
محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"