"آزاد"

سنو میں ایک آزاد ہوں
ایک آزاد انسان
ایک آزاد سوچ
ایک آزاد خیال
ایک نیا خواب 
میں آزاد ہوں
اس قدر کہ بس
میں آزاد نظم کہنا چاہتا ہوں
ایک بالکل آزاد نظم
جس میں قافیہ ردیف
مصرعے کی حد بندی
ان سب کی قید سے آزاد
میں چاہتا ہوں
دُنیا آزاد ہوجائے
ان نوحوں و سوگ سے
زندگی کے روگ سے
موت کے خوف سے
لفظوں کی قید سے
آزاد ۔۔۔بالکل آزاد۔۔۔
جہاں جسم یکساں
رقص کرسکیں
جہاں موسیقی کی دُھن ہو
جہاں رنگوں کا پیرہن ہو
جہاں نظریات کی کوئی جنگ نہ ہو
جہاں نفرتوں کے رنگ نہ ہوں
جہاں جھنڈوں کی یلغار نہ ہو
جہاں سرحدوں پر تلوار نہ ہو
جہاں زبان کے غازی سی گفتار نہ ہو
ہاں آزاد بالکل آزاد
مگر
میں خود تُم میں
قید ہوگیا ہوں
خود کے دُکھ و درد سے
آزاد ہوگیا ہوں
لگتا ہے تُمھارے جسم میں
میں اُتر چُکا ہوں
میں خود سے آزاد ہوچکا ہوں
آو میں تُم کو آزادی دوں
ہاں آزادی ۔۔۔ہاں ۔۔آزادی
مُحسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"