انیس دسمبریا یوم ثروت دوہزار چودہ۔۔


    انیس دسمبریا یوم ثروت دوہزار چودہ۔۔
   قارئین! یوں تو ثروت مزمل سے میری پہلے بھی ملاقات ایک سرسری سی ہو ئی ہے،جو کہ ایک (این۔جی۔او)کی میٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔میرا اس وقت ان سے جان پہچان کو ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا تھا سوشل میڈیا کی ویب فیس بک کے تحت،مگر چیٹ کے دوران باتوں باتوں میں جب انہونے I.B.A کے اندر ایک ایونٹ میں شرکت کے لیے باضابطہ دعوت دی۔دعوت تو دو دن کی تھی مگر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ایک ہی دن جاسکا۔جو کہ صبح سے شام تک کا تھا حسب روایت وقت پر پہنچ گیا۔سلام دعا کے بعد جب انسٹال لگوانے لگا تو پاؤں میں نیا جوتا بری طرح کاٹنے لگایہاں تک کے خون نکل آیاگھاس پر کچھ دیر چلنے کے بعد ثروت نے پوچھا کون کون سیمینار میں چل رہا ہے تومیں اور ثروت گئے باقی سب انسٹال پر رک گئے۔جیسے ہی سیمینارمیں داخل ہوئے تو چند الفاظ پڑھتے ہی ثروت نے کہا  ”سر! شائدمیری
ہی کہانی سنارہے ہیں“۔پھر سر شاہد نے کہا  ”دیکھیں۔۔وہ آگئیں“جن کا ذکر کر رہا تھا سارا آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اُٹھا یک دم۔جب سر نے نام لیا ہماری ہونہار طالبہ ثروت مزمل اس کے بعد تالیوں کی آواز مدھم ہوئی کچھ تومزید سر نے کہا یہ ہماری وہ طالبہ ہیں جو بار بار فیل ہونے کے باوجود پریکٹیکلی طور پر اتنی مضبوط ہیں کہ انجینئرنگ بلکہ ریورس انجنئیرنگ پر بھی مکمل گرفت رکھتی ہیں اور یہ اس شعبہ کہ انٹرپریونر بھی ہیں اور یہ کراچی کی مختلف جامعات میں اپنی خدمات انجام دے چکی ہیں بلکہ اس کے ساتھ پاکستان بھر کی انڈسٹریل شہروں میں بھی انجینیئرنگ کے شعبے میں اپنی خدمات کا اعتراف کرواچکی ہیں۔ہم ایسے ہی بچوں کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ڈگری کی ثانوی حیثیت ہوتی ہے۔
ٓاصل حیثیت آپ کی اپنی ہوتی ہے۔ہماری اس بچی کے بارے میں سب یونیورسٹیز کے فیکلٹی مممبرز کی بھی یہی رائے ہے (وڈیوبناتے ہوئے)سب کے چہرے اثبات میں ہلتے دیکھے۔جس میں عثمانیہ انسٹیوٹ کے ڈاکٹر عرفان شیخ،استاد عبدالرحمن صاحب او ر دیگر یونیورسٹیز کے فاؤنڈرزجن میں میاں صاحب انکے ساتھ چودہ ارکان بھی شامل تھے۔اس کے بعد اسٹیج پر ثروت کو مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے انٹرپرینور کے بارے میں آگاہی فرہم کی طلبہ میں۔اسٹیج سے اترتے ہی لوگوں نے انہیں تصویروں کے لئے گھیر لیا آڈیٹوریم میں نہ صرف کراچی پاکستان کے چاروں صوبوں سے انجینئرنگ کے طلبہ شامل تھے جو تصویریں لیتے رہے۔ثروت کا انسٹال دراصل دو کمپنیزکو کی نمائندگی کر ہاتھا ایک E-Code جو کہ ان کے اپنے شعبے سے وآبستہ اور دوسر ی Neno-Tech ان کے بھائی کی لیپ ٹاپ اور سروسز کی سارے دن رش رہا اسٹال پراور لوگ آتے رہے انکی خوبیوں کو سراہتے رہے ساتھ اپنے کام کی متعلق بھی پوچھ گچھ لیتے رہے اور جب کہ دیگر جونئیرز کے اسٹال سے لوگ آکر ان سے رہنمائی اور سوالات پوچھتے رہے اپنے پروجیکٹس میں بہتری کے لئے۔ساتھ ساتھ ٹی وی چینل نے بھی انکا ایک مختصرسا انٹرویولیا اس پورے ایونٹ میں وہ کسی سیلیبریٹی کی طرح نمایاں رہیں۔انکی شخصیت کی جوسب سے زیادہ متاثر کن پہلو میں نے دیکھا وہ مسلسل مسکراتی رہیں سب کی باتوں کا عاجزی سے جواب دینا جس میں مزاح کی حس بھی شامل تھی۔فقط اٹھائیس سال کی عمر میں وہ ایک مکمل شخصیت کی حامل ہیں۔اسکے علاوہ ان کے والد صاحب بھی بندہ پرو رانسان ہیں جنہونے اپنی بیٹی کو ہارنے نہیں دیا مسلسل اس کے ساتھ کھڑے رہے۔انکے والد سے پروگرام کے اختتام پرایک لمبی نشت رہی جس سے معلوم ہوا کہ ایک بہترین علم وفہم والی شخصیت ہیں جن سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔جبکہ چودہ دسمبر کے سانحہ کے بعدجانا کہیں بھی بہت ہی مشکل اور کٹھن لگ رہا تھا وہ بھی ایسی جگہ جو میری فیلڈ ہی نہیں۔بہرحال اس سانحے کے بعد انیس دسمبرنہیں بلکہ جیسے کوئی جیسے کوئی یوم ثروت منایا گیا ہو۔میری دعائیں اور نیک تمنائیں
ثروت مزمل کے ساتھ۔
                     شکریہ
تحریر:محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"