مبارک ہو!

مبارک ہو!
   پاکستان کے اند ر پھر سے سیاسی(عسکری)قیادت پھر سے شائد کوئی نظام ِ مصطفی ﷺلانے
   پر چل پڑے ہیں ابھی پچھلے گناہوں کے داغ دُھل نہیں پائے تھے کہ نئے داغ لگانے چلے ہیں
   افسوس صد افسوس ہماری مذہبی جماعتوں نے کوئی سبق ماضی سے نہیں سیکھا کیونکہ سیاست
   شائد ہمارے ملک میں سیکھنے کا نہیں بلکہ بس اقتدار کے اعوانوں میں داخل ہونا ہے۔
   1977ء میں نظام ِمصطفی ﷺ(جہادی کھیل) کھیلا گیا اب لگتا ہے اب کہ کھیل کے اصول
   شائد تھوڑے نئے ہیں۔اس میں شائد ہمارے بھولے وزیر اعظم نوازشریف کا بیان
   پاکستان کو لبرل ملک بنانے کے بعد ہماری مذہبی جماعتیں اضطراب کا شکارہوگئیں اور پھر
   ممتاز قادری کی پھانسی نے مذہبی ٹھیکیداروں کی پھانس کا پتہ لگانے میں مدد کی اور ان کو
   ایک نادر موقع مل گیا۔
   اب اس بات کو بین الاقوامی معملات سے نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں بحرین میں پاکستان
  کے سابق افسران کے کم و بیش چالیس ہزار پاکستانی وہاں سُنی شیعاؤں سے برسرِپیکار ہونے
  کے لئے پاکستان سے گئے ہیں۔جب کہ گزشتہ دو ماہ قبل حزب اللہ کی تنظیم کے لئے پاکستان
  سے بیس ہزار پاکستانی تیار موجودگی کا اظہار کیا گیا۔اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر یہ سمجھ میں بات
   میری ناقص عقل میں یوں دکھائیدیتا ہے یہ عین کھیل کا حصہ ہے جو پاکستان میں د ینی
   جماعتیں اتحاد کو نکل کھڑی ہوئی ہیں۔گویا بات کویوں سمجھنے کی ضرورت ہے پہلے پاکستان
    تربیت کر کے بھیج رہا تھا افغان جنگ میں اب کہ پاکستان پُرانے جہادی جو خاموش ہوگئے
  تھے وہ آگے چل کر پاکستان میں اُدھم چوکڑی نہ مچادیں انکو دوسرے ممالک کھپا کر یا باہر ٹریننگ
   کے ذریعے بھیج دیا جائے جس سے پاکستان سے نکل کر کسی بھی ملک میں موجود جہادجتھے انکو
   تربیت دے کر اگلے ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف اُتاریں۔
   ا س کام کے لئے مذہبی سیاسی جھتوں کا اتحاد اہم ضرورت قرار پایا ہوگا پاکستان میں سیاست
   ہر دور میں عسکری اشاروں کے تابع رہی ہے خاص کر کے مذہبی حلقے ابھی تو خیر سے ان
   مذہبی سیاسی جماعتوں نے فقط باورچی خانے میں ہانڈی چولہے پر رکھنے کی کوشش کی ہے
   اب دیکھنا ہے اب کہ نظام مصطفی ﷺ کے نام پر اقتدار تک جانے میں کون کون بلواسطہ
   ان کا ساتھ دیتا ہے یا انکاحال بھی گزشتہ دنوں ہونے والے اسلام آباد کے دھرنوں کی
   طرح ہوتا ہے۔یہ دینی اکابرین یا مذہبی ٹھیکیدار ایک جگہ جمع ہوئے ہیں لیکن جتنی بار متحد
   ہوئے ہیں تاریخ میں اس کے بعد اتنی ہی زیاد سیکولر و لبر طاقتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہی
   ہواہے۔مگر ہم تاریخ کے اس اہم موڑ پر ایک اورجنگ اپنے لوگوں پر مسلط نہیں کرسکتے۔
   قوم کی نئی سیاسی دھارے میں شامل ہونے والے نوجوان طبقے کو مبارکباد انکی وجہ سے نئی نسل
   ان کے بارے میں خود فیصلہ کرسکے گی۔
                               (تحریر:محسن علی)
    (نوٹ:میرا نام محسن علی،گریجویٹ (سیاسیات)،سیکولر سوچ کے مالک،ایک نجی ٹی وی
    چینل میں ملازم ہیں،شاعری اور سیاسیات پر نظررکھتے ہیں)


Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"