Posts

Showing posts from April, 2017

"ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے"

ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے اس لئے ہم سب کے کاکڑ صاحب نے خالہ کا کردار ادا کرتے ہوئے چھوٹے قاتل لدھیانوی کا انٹرویو چھاپہ تو ریاست کو بھی اپنا بیٹا بڑا قاتل احسان اللہ احسان فخر پاکستان "قاتل پاکستانی" کو فی الفور اسپیس دینی پڑی ۔۔شکریہ راحیل شریف کا بھجن پڑھنے والے شکریہ پاک فوج کے ترانے نہیں بجارہے نہ کسی غیرت بریگیڈ کی غیرت جاگ رہی نہ استعفی دو محافظ قاتل باجوہ کے نعرے نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کی عزت کو دھچکا لگا ایک چھینک کی آواز نہیں سنائی دی گئی میڈیا پر جبکہ سپری م کورٹ سوموٹو بھی نہیں لیا کہ کس قانون کے تحت پاکستانی عوام کے قاتل کو قوم کا بیٹا دیا گیا ہے کسی نے پٹیشن بھی درج نہیں کی ، جی کیا اسلامی یا لبرل پاکستاں میں ہزاروں قتل کرنے والے کو کس اصول کے تحت معاف کیا گیا ہے کیا مقتولین کے خاندان والوں نے معاف کردیا ۔۔نہیں مگر ایک سوئی نہیں گریگی ۔۔ مردہ باد مردہ باد باجوہ مردہ باد، نوازشریف مردہ باد ،زرداری مردہ باد، اسفند یار ولی مردہ باد، عمران خان مردہ باد۔۔  مردہ باد مردہ باد پاکستان کے قاتل اصول مردہ باد، قاتلوں کو پناہ دینے والے مردہ باد ، انکو سزا کے

"ہم نیلسن مںڈیلا"

"ہم نیلسن مںڈیلا"  پاکستان کی ریاست و قوم کو شائد ریاستی طور پر نیلسن منڈیلا بننے کی انگڑائی لی ہے یوں تو یہ بات میں نے گزشتہ سال اپنے ایک کالم میں کی تھی کہ سیاسی رہنماوں کو عام معفافی تلافی دے دییں اور تمام تر فرقہ پرستوں کو بھی ، اس کے بعد نیا سوشل کںٹریکٹ کرکے سب کو معاف کردیں اور پھر مسلکی کتابوں کا مسودہ نئے سرے سے تشکیل کریں جس میں رواداری کا پہلو نمایا ہو ، مگر اس سوشل کنٹریکٹ کے لئے قوم کی مجموعی سوچ سے رائے لی جائے جن کے رفقاء و عزیز شہید ہوئے ہیں انکی نوکریوں کا مستقل بندوبست کرے سات جو معذور ہوئے ان کے لئے بھی پہلے ریاست کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات کرے۔۔ یہ سب کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کرتی کہ ریاست ایسا کرنے جارہے ہے کیا عوام الناس اس سے متفق ہے یا نہیں اور پھر عوام کی آراء کے مطابق نیا سوشل کنٹریکٹ کرکے فوج کو بلوچستان اور کراچی سے وآپس بلا کر سیاسی قائدین کو ملک میں وآپس بلا کر اور دہشتگردوں کو آخری نوٹس دے کر تسفیہ کیا جاتا ، اگر قوم کی اجتماعی سوچ دہشتگردوں اور قاتلوں کو پھانسی کے حق میں ہوتی تو لازمی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہئے تھا مگر کیا کر

دھتکارے ہوئے لوگ ( سندھو لغاری)

Image
            15 مارچ 2017  |  سوجاگ سے لی گئی تحریر        تحریر کرنے والی کی اجازت سے         سندھو لغاری سندھ کے شہر حیدرآباد کی گڑھی نواز کالونی کی تنگ، بدبو دار اور خستہ حال گلیوں سے گزرنے کے بعد خواجہ سراؤں کے گھر نظر آتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا اپنے گھروں میں اکیلے یا پھر کسی دوسرے خواجہ سرا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ناچ گانا کرکے پیٹ پالتے ہیں اور کچھ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دس بارہ جماعت پڑھے ہوئے ہیں مگر کہیں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے یہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹی عمر کے ناپختہ کار خواجہ سرا اپنے گُرو کے مقلد ہوتے ہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ گُرو ان کی نہ صرف رہنمائی کرتے بلکہ حصول معاش میں بھی مدد کرتے ہیں۔ یوں ان خواجہ سراؤں کا زیادہ تر انحصار اپنے گرو پر ہوتا ہے۔ آخر انہیں اپنا گھر کیوں چھوڑنا پڑتا ہے؟ بیشتر خواجہ سراؤں بتایا کہ ماں باپ کے علاوہ دیگر اہل خانہ والوں کا برتاؤ اُن کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ کچھ نے تو کہا کہ باپ کا رویہ بھی ان سے نامناسب تھا۔ خواجہ سرا 'بندیا' اب بھی اپنے خاندان کے س