Skip to main content

دھتکارے ہوئے لوگ ( سندھو لغاری)

           15 مارچ 2017 سوجاگ سے لی گئی تحریر 

سندھ کے شہر حیدرآباد کی گڑھی نواز کالونی کی تنگ، بدبو دار اور خستہ حال گلیوں سے گزرنے کے بعد خواجہ سراؤں کے گھر نظر آتے ہیں۔
یہ خواجہ سرا اپنے گھروں میں اکیلے یا پھر کسی دوسرے خواجہ سرا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ناچ گانا کرکے پیٹ پالتے ہیں اور کچھ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو دس بارہ جماعت پڑھے ہوئے ہیں مگر کہیں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے یہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
چھوٹی عمر کے ناپختہ کار خواجہ سرا اپنے گُرو کے مقلد ہوتے ہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔
گُرو ان کی نہ صرف رہنمائی کرتے بلکہ حصول معاش میں بھی مدد کرتے ہیں۔ یوں ان خواجہ سراؤں کا زیادہ تر انحصار اپنے گرو پر ہوتا ہے۔
آخر انہیں اپنا گھر کیوں چھوڑنا پڑتا ہے؟ بیشتر خواجہ سراؤں بتایا کہ ماں باپ کے علاوہ دیگر اہل خانہ والوں کا برتاؤ اُن کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ کچھ نے تو کہا کہ باپ کا رویہ بھی ان سے نامناسب تھا۔
خواجہ سرا 'بندیا' اب بھی اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہے۔ اُس نے بتایا کہ پہلے اُس کا باپ اسے برداشت نہیں کرتا تھا مگر اب وہ ناچ گانا کرکے اپنے خاندان کی مالی مدد کرتی ہے تو اس کے والد کا رویہ پہلے سے بہتر ہے۔
اُس کا والد گدھا گاڑی چلاتا ہے جس سے پورے خاندان کا پیٹ پالنا بہت مشکل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواجہ سرا اپنے خاندان کی مالی کفالت کرنے کے قابل ہوں تو شاید ان کا خاندان بھی انہیں قبول کرنے میں نہ ہچکچائے مگر یہ بات سب کے لیے دُرست نہیں۔
ہمارے ہاں ان کے لیے نہ کوئی سکول ہے، نہ ہی ملازمت کے مناسب مواقع،
ہمارے ہاں ان کے لیے نہ کوئی سکول ہے، نہ ہی ملازمت کے مناسب مواقع،
بہت سے خواجہ سرا مالی طور پر مستحکم خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں اپنا گھر چلانے کے لیے ان کی مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں مگر یہی خواجہ سرا اگر معاشرے میں خود مضبوط حیثیت یا مقام رکھتے ہوں تو شاید اُن کے اپنے انہیں اپنانے سے گُریز نہ کریں۔
تو یہ کیسے ممکن ہے؟
ہمارے ہاں ان کے لیے نہ کوئی سکول ہے، نہ ہی ملازمت کے مناسب مواقع، لوگ انہیں دیکھ کر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں یا فحش باتیں کرتے ہیں۔ وہ سماجی تنہائی کی وجہ سے ان میں سے بیشتر ناچ گانے یا بھیک پر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن بعض خواجہ سراؤں کے گھروں کے آگے کھڑی بڑی بڑی گاڑیاں کوئی اور ہی کہانی سناتی ہیں۔
معاشرے کے ٹُھکرائے ہوئے یہ انسان مردوں کی ہوس مٹانے کا دھندہ کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ منٹو نے لکھا تھا کہ یہ معاشرہ عورت سے دھندہ تو کروا سکتا ہے مگر تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسی طرح مردوں کا سماج عورتوں اور خواجہ سراؤں کو اپنی ہوس کا نشانہ تو بنا سکتا ہے مگر انہیں معاشرے میں وہ عزت اور مقام نہیں دیتا جو بطور فرد اس کا حق ہے۔
خواجہ سرا ہم میں سے کسی کے بھی بچے یا رشتہ دار ہوسکتے ہیں۔
جینیاتی نقص یا کوکھ میں ہارومونز کے تناسب میں کمی بیشی کی وجہ سے ان کے جنسی اعضا مکمل نہیں ہو پاتے۔ بچے کے اندرونی جنسی اعضا اگر لڑکی کے ہوں تو باہر سے لڑکے کے ہو سکتے ہیں یا اس کے برعکس اندرونی جسم لڑکے کا تو باہر سے لڑکی کا یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔
یورپ اور امریکا جیسے ممالک میں سرجری کے ذریعے ان کا علاج کچھ حد تک ممکن ہے۔ مثلاً ان کی اصل جنس کی شناخت کرکے اضافی جنسی اعضا کو سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے یا پھر نامکمل بنے ہوئے اعضا کو ری کنسٹرکٹ کردیا جاتا ہے۔
مگر سوال ہے کہ جنسی اعضا کا غیر معتدل ہونا انہیں معاشرے کا نارمل فرد ہونے سے محروم اور خاندان سے دور رہ کر جسم فروشی کے اڈے چلانے پر مجبور کیوں کرتا ہے؟
لوگ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں شرم محسوس کرتے ہیں تو کئی ماں باپ انہیں اپنے گناہ کی سزا سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ دار تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی انہیں خاندان کی کسی تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس دوسرے لوگ انہیں پیسے دے کر اپنے تقریبات میں ناچ گانے کے لیے بلواتے ہیں۔
یہ وہ بدنصیب ہیں جن کا ذکر مقدس کتابوں میں بھی نہیں ملتا۔
افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی ایسے مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جن سے وہ جسم بیچنے پر مجبور نہ ہوں یا پھر انہیں بھیک نہ مانگنا پڑے، نہ ہی ایسے مؤثر قوانین تشکیل دیے گئے ہیں جو انہیں معاشرے کا مساوی فرد تسلیم کرانے میں مدد دیں۔
ان کے ساتھ متعصب رویہ رکھنے یا ان کی حق تلفی کرنے پہ سزا ہونی چاہیے، چاہے وہ ان کے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
ویسے تو ہماری ہر تان سرکار کے رویے پرآکر ٹوٹتی ہے تاہم اس معاملے میں حکومت کی جانب سے خصوصی کو ششوں کی ضرورت ہے۔ سماجی بیداری کی مہم اہم قدم ہوسکتا ہے دوسرے مرحلے پر ان کے لیے کالج اور یونیورسٹیز میں اسکالرشپ اور کوٹا مقرر کیا جاسکتا ہے۔
انہیں سماجی دھارے میں لانے کے لیے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کو ملازمت میں ترجیح دی جانی چاہیے اور پارلیمنٹ میں ان کے لیے بھی نشستیں مخصوص کی جانی چاہیئں۔
ان اقدامات سے انہیں معاشرے میں باعزت اور باوقار فرد کی حیثیت سے زندگی گزارنے میں مدد ملے گی اور وہ اپنے نہ کردہ گناہ کی سزا سے بچ پائیں گے۔



































ڈاکٹر سندھو لغاری

سندھو لغاری پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ انہیں سنجیدہ اور حساس سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے۔
 

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"