"ہم نیلسن مںڈیلا"

"ہم نیلسن مںڈیلا"
 پاکستان کی ریاست و قوم کو شائد ریاستی طور پر نیلسن منڈیلا بننے کی انگڑائی لی ہے یوں تو یہ بات میں نے گزشتہ سال اپنے ایک کالم میں کی تھی کہ سیاسی رہنماوں کو عام معفافی تلافی دے دییں اور تمام تر فرقہ پرستوں کو بھی ، اس کے بعد نیا سوشل کںٹریکٹ کرکے سب کو معاف کردیں اور پھر مسلکی کتابوں کا مسودہ نئے سرے سے تشکیل کریں جس میں رواداری کا پہلو نمایا ہو ، مگر اس سوشل کنٹریکٹ کے لئے قوم کی مجموعی سوچ سے رائے لی جائے جن کے رفقاء و عزیز شہید ہوئے ہیں انکی نوکریوں کا مستقل بندوبست کرے سات جو معذور ہوئے ان کے لئے بھی پہلے ریاست کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات کرے۔۔ یہ سب کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کرتی کہ ریاست ایسا کرنے جارہے ہے کیا عوام الناس اس سے متفق ہے یا نہیں اور پھر عوام کی آراء کے مطابق نیا سوشل کنٹریکٹ کرکے فوج کو بلوچستان اور کراچی سے وآپس بلا کر سیاسی قائدین کو ملک میں وآپس بلا کر اور دہشتگردوں کو آخری نوٹس دے کر تسفیہ کیا جاتا ، اگر قوم کی اجتماعی سوچ دہشتگردوں اور قاتلوں کو پھانسی کے حق میں ہوتی تو لازمی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہئے تھا مگر کیا کریں ہماری ریاستی ادارے ایک دم سے پالیسی پر ایک سو اسی ڈگری کا ٹرن لے کر حالات کو بہتری کی بجائے قوم کو ہیجان اور دو حصوں میں تقسیم در تقسیم کردیتے ہیں ۔ آج تک پاکستانی لوگ سمجھ ہی نہ سکے کسی پالیسی کو پوری طرح ہر دس بیس سال بعد پالیسی ایسی پلٹتی ہے کہ عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں شائد یہی وجہ ہے پاکستان میں آکر ہر نظریہ کنفیوژن کا شکار دکھآئی دیتا ہے ۔ پاکستان میں ریاست یوں تو اپنے مفادات کے لئے ریفرنڈم کرواتی ہے اگر یہ عوامی اور ملکی مفاد میں ہی کیا ہے تو اس کے فوائد عوام کو بتلا کر اس پر ریفرنڈم کروالینا چاہئے تھا بجائے قوم سے اجتمعاعی طور پر لعن طعن سننے کے افسوس ہماری ریاست کسی بھی معاملے کو عوام کی رائے جانے بغیر ہی ان پر ہر فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے پھر جس کے نتیجے میں ریاست پر عوام کا بھروسہ لرزتا جارہے یوہی ظالموں کو اگر اپسیس دے کر بٹھایاجاتا رہا تو ریاست اپنا وجود کھوبیٹھے گی ۔ تو کیا ہی برا تھا کہ براہمداغ بگٹی و الطاف حسین صاحب کے علاوہ دیگر رہنماوں کو بھی اس کے تحت وآپس لاکر عام معافی دی جائے اور پھر عوام کے بنیادی مسائل کی جانب ریاست اپنا کردار ادا کرے جو کہ روٹی،کپڑا اور مکان کے ساتھ صحت ، تعلیم ،کھیل اور دیگر علم و فنون کی ترویج کرے عوام کی بھلائی اور مضبوط ریاست کے لئے کیوںکہ عوام کی خوشحالی کے بغیر عوام اور ریاست کا رشتۃ کچے دھاگوں کی مانند ہوتا ہے لحاظہ عوام اور ریاست کا مضبوط تعلق ہی پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے بصورت دیگر ہم سقوط ڈھآکہ دیکھ چکے ہیں ۔ اب یہ ریاستی اداروں پر اورحکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام کو کس طرح مطمعین کرتے ہیں ۔ فی الوقت عوام سوشل میڈیا پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور وزیراعظم صاحب اس سنگین مسلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جس کے نتائج آگے چل کر خطرناک ہوسکتے ہیں اور ریاست کا نیا بیانیہ لبرل پاکستان مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا موجودہ حالات کے تناظر میں ۔
 یوں تو جنگوں کے اختتام مین حریف کے لوگ حلیف بن جاتے ہیں جیسا گزشتہ صدی کی جنگ میں دیکھا گیا کہ جاپان نے ڈھائی کڑوڑ سے زائد لوگ مارے تو ہیروشیماکے دھماکے کے بعد وہ اپنے ایک حریف امریکہ کا حلیف بن گیا اور اپنی تمام تر توانائی قوم کی فلاح و بہبود میں لگا دی کیا خبر ہم بھی عجلت میں ہی
 ہم سب میں شائد نیلسن مںڈیلا بن گئے ہیں جو نورین لغاری، لدھیانوی اور احسان اللہ احسان کو اسپیس دے رہے ہیں ۔
 تحریر:محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"