پاکستان سے غائبستان کا سفر

                            پاکستان میں غائب ہونے کا سفر آغاز سے ہی شروع کردیا تھا جسکی پہلے کڑی قائد اعظم پھر لیاقت علی خان پھر رفتہ رفتہ سول حکومتوں کو پیچھے سے اٹھک بیٹھک کرواتے رہنا اور پھر آخرکار ایوب خان نے ایک دہائی تک سول حکومت غائب کردیجس کے درمیان میں پینسٹھ کی جنگ جو کہ ہم نے   ”جیتی“  کی تاریخ غائب کردی گئی پھر اسکے بعد بنگالیوں کوغائب کردیا گیا نقشے سے،پھر بھٹو صاحب عوامی رائے سے ملک پر حکمران بننے اور پھر مذہبی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر دوسری ترمیم کروادی جس سے پھر احمدی حضرات غائب ہونا شروع ہوگئے  ”کبھی جان سے گئے کبھی ملک سے بھاگے“۔اسکے بعد ہم نے یہ سفر کچھ تیزی سے طے کیا اور ہم نے بلوچستان کے بارے میں ملکی سطح پر خبریں غائب کرنی شروع کردیں،مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے دور میں پی پی کے لوگ تیزی سے غائب ہوتے گئے۔اس سلسلے کو بانوے سے ننانوے تک دو جمہوری دور میں بہت تیزی ملی غائب ہونے کی روایت کو مگر مجال ہے کہ قومی سطح پر کسی نے کان دھرے ہوں اس غائب ہونے کے بار ے میں کیونکہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی لے کر مسجد یں بیٹھے رہے۔ پھر یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں دیکھنے کو ملا اور اس کے بعد یہ سلسلہ خاموشی سے کام کرتا رہا مگر کہیں سے کوئی واضح آواز سننے کو نہ ملی گنتی کے چند ہی لوگ جو گزشتی تیس سال سے آواز اٹھارہے تھے وہی لوگ سوشل میڈیا پر غدار وغیرہ ٹہرائے گئے اور انہیں ہی پاکستانی عوام کے سامنے ملک دشمن قرارد لوایا گیا عوام کی نظر میں اور اس بہترین پراپینگینڈے کے ساتھ جس کی کوئی انتہانہیں۔مگر ان سب میں قصور جہاں ریاستی اداروں کا ہے وہی سیاسی وجمہوری پارٹیوں کے علاوہ مذہبی پارٹیوں کا بھی۔خاص کر اس میں متحدہ کیونکہ سب سے زیادہ اس بارے میں بات کرتی رہی میڈیا اور عوام کے سامنے مہاجر وں کے غائب ہونے پر مگر کوئی ٹھوس پیش رفت نہ کرسکی بہت سست روی کے ساتھ یہ کام ہوا بہرحال دوسری طرف بلوچستان کے حق میں بولنے والے سول سوسائٹی کے ڈاکٹر منان پہلے آواز بنے پھر ہتھیار اٹھانے پر ریاست نے مجبور کردیا، اسکے بعد ماما قدیر،سبین محمود، واحد بلوچ او ر حامد میر،وسعت اللہ خان،محمد حنیف جیسے صحافی لکھتے رہے۔اسکے بعد یہ سلسلہ دو سال سے کراچی میں ضرب عضب آپریشن کے نام پر کراچی کی نمائندہ جماعت متحدہ کے لوگوں کوپکڑ ا جاتا رہا غائب ہوتے رہے علی سجاد شاہ نے بتایا گیارہ سو لوگ کوئی دو ہزار پندرہ میں غائب ہوئے اور لاشیں ملیں جب کہ دو ہزار سولہ میں بارہ سو کے لگ بھگ۔۔ مگر جو غائب ہوئے وہ سب جن پر مقدمات تھے یا کرپشن یا الزامات ان کو پی ایس پی میں شامل کر کے کچھ کا تو سدباب کردیا جب کہ اب بھی متحدہ کے ایک سو چوتیس لوگ غائب ہونے کا دعوی ہے جبکہ اس سال ریاست نے بلوچستان اور فوج پر تنقید کرنے پر چند بلاگرز اٹھائے اور پھر اسکے بعد ایک احتجاج کاسلسلہ کئی شہروں میں سول سوسائٹی اورسوشل میڈیا کے لوگوں نے شروع کیا پھر آخر کارریاست کو ان میں سے دو کو چھوڑنا پڑا جبکہ تاحال ثمر عباس، دو سال سے غائب لاہور کی زینت شہزادی،شبیر بلوچ،شاہجاہاں سالف،اور توہین رسالت کا مبینہ الزام رانا نعمان،ایاز نظامی،عبدالوحید،ہنزہ سے ایک نوجوان صادق علی انسانی حقوق کا رکن اسکو غائب کردیا گزشتہ ہفتے پاکستان کی ریاست جس تیزی سے اس غائبستان کی پالیسی پر گامزن ہے۔یہ سوشل میڈیا پر لکھنے والوں، انسانی حقو ق کی بات کرنے والوں کو اسطرح اٹھانا ایک افسوسناک عمل ہے جبکہ ریاستی قانون میں آزادی کی بات کی گئی ہے شہریوں کی۔جبکہ کسی پر الزام کی صورت میں تین دن میں میجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم ہے جسکی ریاستی ادارے پاسداری نہیں کرہے اور مزید نوے روز سے اوپرگزرجانے کے باوجود عدالت میں کیس بھی داخل نہیں کروارہے۔جب کہ غائب ہونے والوں کے گھروں میں سناٹے پڑے ہیں اور مائیں اپنے بچوں کی راہیں تک رہیں ہیں اور سارے گھر والے پریشان حال ہیں کیونکہ نہ انہیں لاش ملتی ہے کہ چین آجائے نہ کیس کا پتہ چل رہا بہت سے لوگوں کو۔کل میں نے اسٹیٹس فیسبک پر لگایا تو معلوم ہوا پنجاب میں بھی پنجابی غائب ہونے لگے ہیں ایک صاحب نے بتایا۔ ریاست نے جو توہین مذہ ب کے نام پر لوگوں پر الزام لگا کر اٹھانا شروع کیا اس کا انجام ہم نے مردان میں مشال کے واقعے سے دیکھ لیا اور اس کے بعد مختلف دوواقعات سننے کو ملے جس میں ایک آدمی کو بہنوں نے قتل کیا اور دوسرے میں امام مسجد نے جان بچالی ایک ذہنی مریض کی ورنہ اسکا بھی مشال جیسا حال ہوتا۔بحرحال ریاست اپنے اندر بہت سے چیلنجز سے نمٹ رہی ہے مگر پاکستان کو غائبستان بنانے کا سلسلہ اب رک جانا چاہئے۔بصورت دیگر ریاستی ادارے قوم میں اپنی عزت وقار کھودینگے جبکہ بارڈرکے تینوں اطراف حالات کشیدہ ہیں۔ایسے وقت میں قوم کو ساتھ ہونا چاہئے مگر ریاست کی یہ پالیسی نہ عوام کے لئے کچھ اچھی خبر ثابت ہوگی نہ ہی ملک کے مفاد میں ریاستی ادارے جس پالیسی پر گامزن ہیں وہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس طرح غائب کرنا عموما کچھ عرصے پہلے تک اغوا ء برائے تاوان کے واقعات سننے کو ملتے تھے۔ اب ریاست خودیہ غیر قانونی اقدام اٹھا کر اپنی بدمعاشی کا ثبوت دے رہی ہے جیسا کہ پیمرا کے ابصار عالم نے بھی میڈیا کو بتلایا۔اب وہ دور چلا گیا آپ غائب کریں لوگ چپ رہیں اب لوگ نکلیں گے بولیں گے بات کرینگے۔ اپنے حق کے لئے لڑینگے آواز بندکرنے کے بجائے لوگوں کی سنیں ورنہ کل کو کوئی آپ کی نہیں سنے گا۔ میں تو 
احتجاجاَ َ  پاکستان کو  ”غائبستان“ ہی لکھونگا۔ریاست پاکستان اور اسکے ادارے سے گزارش ہے جلد از جلد تمام بے گناہ اسیران کوچھوڑیں تاکہ رمضان میں وہ اپنے پیارو ں کے ساتھ ہوں۔
تحریر:محسن علی                        

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"