بلوچستان آخر مسلہ ہے کیا؟

یوں تو بلوچستان کے بارے میں بات کریں تو فوراََ لوگوں کے ذہن میں آزادی کے متوالے(جو فقط فوج کو وہاں نہیں دیکھتا چاہتے) بلوچستان کے وہ ذہن میں آتے ہیں۔ تو دوسری طرف ریاستی تشدد و دہشتگردی اور دوسری طرف ناراض بلوچ یا علیحدگی پسندوں کی دہشتگردی، مگر کیا یہ سب اتنا آسان ہے کہ چند جملوں سے اس بات کا تصفیہ کرلیا جائے اور کہ دیا جائے کہ بلوچ سردار ذمہ دار ہیں اور ریاست؟کیا صرف بلوچستان میں یہ دو ہی طرز ہیں کیا تیسرا بلوچ وہ نہیں جو فقط امن چاہتا ہے کہ وہ جی سکے اور بہتر زندگی کے مواقع اور بہترین شہری سہولیات سے لُطف اندوز ہوسکے۔ یوں تو بلوچستان پر بات کرتے ہوئے سب کے پر جلتے ہیں کہ فرشتے وہاں موجود ہیں میڈیا وہاں چند جگہوں سے آگے نہیں جا سکتا سب خبریں ایف سی، رینجرز یا پاک فوج کی جانب سے میسر ہوتی ہیں۔اُسکے سوا کوئی ذریعہ نہیں اور میڈیا آنکھ بند کر کے چلانے پر گامز ن ہے۔
بلوچستان کی بات کریں تو ستر سالہ ریاستی جبر ایک طرف تو دوسری طرف بلوچ سرداروں کی ہٹ دھرمیاں بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں کیونکہ ریاست نے بلوچستان کو اپنے اندر شامل کیا تھا اس لحاظ سے رریاست کو اپنا عمل دخل کرکے وہاں ترقی کے راستے اور راہیں کھولنی فرض تھیں
جب کہ ریاست بلوچ سرداروں کو مارنے کے بجائے اُن سے سیاسی طرز پر ڈیل کر کے ترقی کے سفر کو جاری رکھ سکتی تھی بجائے چند بلوچ سرداروں کو رائلٹی دینے کے مگر ایسا نہ کیا جو ریاست کی صریحاََ غلطی ہے۔ بلوچستان کی آبادی سب سے کم ہے اور بلوچستان سب سے زیادہ شورش زدہ صوبہ رہا ہے۔جسکی بنیادی وجہ یہ ہے جو لوگ امن کے خواہاں ہیں ریاست کے اندھا دھن دہشت کی وجہ سے وہ سامنے کُھل کر نہیں آپاتے اور دوسری جانب علیحدگی پسندوں کا نشانہ نہ بن جائیں۔
تمام تر اگر،مگر، لیکین، کیونکہ،چونکہ، چناچہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قتل قابل مذمت ہے چاہے وہ کسی کی بھی طرف سے ہو جا اور بے جا دونوں جانب سے مگر قتل قابل مذمت ہے، مگر ہمارا لکھاری و دانشور طبقہ مذمت تو کرتا ہے۔اس کے پیچھے محرکات کو نہیں دیکھتا کیا وجوہات تھیں۔ اُس انسان نے دوسرے انسان کو قتل کیا، کیا حالات و واقعات و معاشرے نے اُس کو اسِ قدر باغی کردیا کہ وہ قتل کرگزرے۔
منٹو نے کہا تھا ۔
”جُرم مجرم کرتا ہے،مگر حقیقت معاشرہ وہ جُرم کرتا ہے “
یا اس بات کو دوسرے انداز میں سمجھنے کے ایک مشہور کہاوت ہے
”جو خاموش ہے وہ بھی مُجرم“
اب بات کرتے ہیں موجودہ حالات کی گزشتہ دنوں اللہ نذر کی بیوی و بچوں کو غائب کردیا گیا سوشل میڈیا پر شور ہوا کہ بیوی بچوں کا کیا قصور اُن کو بازیاب کروایا جائے اس بارے میں، میں نے بھی کافی پوسٹنگ کی مگر بات جب کُھلی تو معلوم ہوا کہ ثناء اللہ زہری نے کراچی سے اُس کے بیوی بچوں کو اٹھا کر چادر پہنا کر ایک سیاسی چال چلی عوام کی نظروں میں جبکہ لوگوں کہ شک و شبہات ایجنسیوں کے جانب گئے کیونکہ ایجنسیاں بھی یہ کھیل گزشتہ دس بارہ سال سے کھیل رہی ہیں۔دوسری جانب یہ بات سامنے رکھی میں نے ایک بلوچ دوست کے سامنے چلو دو طرف تو پیسہ اور طاقت کی جنگ ہے مگر پھر مکران جیسے جہاں سرداری نظام موئثر نہیں وہاں کیونکر ترقی ممکن نہیں دوست نے بتایا مسلہ یہ ہے کہ مکران میں اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بی ایل اے کی پوزیشن مستحکم ہے اور دوسری جانب ریاست بیٹھی تو لہذا وہاں یا اُس جیسے علاقوں میں کوئی پاگل ہی کام کرسکتا ہے یا ترقیاتی کام کروائیگا۔ جبکہ باقی بلوچستان کی کھلے علاقوں میں کسی بھی وقت کسی بھی جانب سے گولی بارود آنے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ بات کرتے ہوئے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جبری طور پر بلوچستان کے علیحدگی پسند جن بلوچ لوگوں نے پنجابی عورتوں یا مردوں سے شادی کرلی تھی۔ اُنکی طلاق جبری طور پر کروائی جاتی ہے کہ ہم کو پنجاب سے آزادی حاصل کرنی ہے۔لہذا اس شدید ترین قسم کی نفرت کے بعد آپ بھلا کیسے کوئی بلوچستان میں کام کرسکتے ہیں۔مزید یہ ہوا کہ بلوچستان کے جن سرداروں کی اکثریت نے بلوچستان آزاد کرنے کے جرگہ میں کہا تھا ہم ساتھ دینگے وہ اب ریاست کے ساتھ مل بیٹھے ہیں۔تو بلوچ جوان اُن کے اس منافقانہ طرز پر مزید تشدد اور نفرت انگیز ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کی آگ ٹھنڈی ہوتی نہیں دکھتی اور اس آگ کو روکنے میں ہمارا لبرل و سیکولر طبقہ یا قوم پرست یا مذہبی طبقہ ریاستی ادارے یا سیاسی لوگ فی الحال سب غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ بانوے سے نناوے تک جس طرز کا دہشت ناک آپریشن کراچی میں ہوا پھر ایک موقع دیا ریاست کی طرف سے چاہے اپنے مفاد کے تحت یا کسی بھی نظریہ ضرورت کے تحت دس سال کراچی میں تقریباََ امن رہا چند واقعات کے سوا مگر پھر سیاسی کوشش سے اور پولیس کی محنت سے کراچی میں امن کی صورتحال بہتر ہوسکی اور جو تیسری قوت تھی خاموش لوگ جو متحدہ و ریاست کے جبر سے تنگ تھے انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور کراچی قتل و غارت کی فضاء سے باہر آیا مگر اس کے لئے معاشرے کی تمام اکایوں نے چھوٹا بڑا کوئی نہ کوئی کردار ضرور نبھایا۔اگر ستر سال بعد بھی شورش یا علیحدگی پسند اور بلوچ قوم کسی بہتری کی جانب نہیں بڑھی تو میری نظر میں اس میں ہمارے دانشورطبقے، ریاستی ادارے اور میڈیا کے ساتھ سول سوسائٹی باقی صوبوں کی انکی نا اہلی نمایاں ہے کیونکہ بلوچستان خوف کے سائے لمبے ہیں۔ جبکہ ریاست کا بنیادی فریضہ شہریوں کو امن و امان دینا ہے۔اس کے بعد روزگار، صحت و تعلیم وغیرہ۔اب دیکھنا ہے ہم بلوچستان کو اس جبر سے کب نکال پاتے ہیں یا ہم اُسکو اپنی مسلسل غلطیوں سے کھودینگے۔
تحریر:محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"