کہانی قسط نمبر دس

کہانی قسط نمبر دس"سارہ کے گزشتہ بوئائے فرینڈ کی انتری عاطف کے بڑے بال اسمارٹ سا چشمہ لگا ہوا ۔۔۔ لمبے قد کا ، گرے ٹی شرٹ اور جینز میں اوپر کورٹ بلیک سردیوں کے دن "
سارہ ایک فلیٹ میں گُھستی ہے چابی سے دروازہ کھول کر اور پرس سے فون نکال کر کال کرتی ہے سارہ خوش بھی ہوتی ہے چہرے سے مگر کچھ اکیلا پن بھی ہوتا ہے کیونکہ اُسکا جو ایک بوائے فرینڈ ہوتا ہے اُس سے وہ ملنے آتی ہے جو ایک ڈیڑھ سال میں اُسکو اُسکی بچی دے دیگا اور دونوں میں ہمیشہ کے لئے علیحدگی ہوجائیگی صرف دوست رہ جائینگے ۔
سارہ اکیلی بیٹھی ہے وہ سوچتی ہے
سوال اٹھتا ہے اُسکے اندر سے سارہ کیا تم عاطف کو واقعی چھوڑ دوگی
سارہ با آواز کہتی ہے خود سے کہتی ہے ہاں میں فیصلہ کرچُکی
سارہ تو اتنآ قریب کیوں گئیں تھیں اُسکے
سارہ با آواز کہتی ہے میں نویں میں تھیں مجھے زندگی کا نہیں معلوم تھا اور انسان کی جنسی ضرورت بھی ہوتی ہے شائد جنسی ضرورت کو میں اور وہ محبت سمجھ بیٹھے تھے تو زارا پیدا ہوگئی ۔
سارہ کیا تم آج واقعی آخری بار مل رہی ہو کیا تم پھر ٹوٹ کر نہیں بکھروگی آج تمھارے جذبات و احساسات ایک بے چینی سے کیوں ہے تم میں ؟
سارہ با آواز کہتی ہے ہاں بس میں آخری بار میں اُس سے اپںی خوشی سے اُس سے مکمل اپنے وجود کو ملا کر آزاد کروالونگی ۔۔ مجھے آگے بڑھنا ہے وہ آگے بڑھ گیا اُس کا فیصلہ تھا الگ ہونے کا میرا نہیں ۔
سارہ کہیں پھر سے اگر تم ۔۔۔
سارہ با آواز کہتی ہے نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا اب کہ بس مجھے اپنی حد معلوم ہے
سارہ کیا تم جنید کے بارے میں سوچنے لگیں
سارہ ۔۔۔ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا میں نے میں اپنے کیرئیر پر توجہ دونگی مزید ایک سال یہ آفس میری زندگی بدل رہا ہے
سارہ کیا تم جنید یا توقیر کے درمیان ؟
سارہ با آواز کہتی ہے نہیں میں واضع فیصلہ کرونگی کسی کے درمیان کنفیوز نہیں ہونگیں ۔
سارہ : کوففی بناتی ہے اور کوففی کے دو سپ ہی لیتی ہے
گھنٹی بجتی ہے ۔
سارہ : کون ہے ۔۔؟
دوسری آواز: عاطف ہوں ۔
سارہ : ایک دم جلدی سے دروازہ کھولتی ہے چائے کا کپ رکھتے ہوئے ۔
عاطف اندر آتا ہے سارہ اُس کے بے ساختہ گلے لگ جاتی ہے جیسے نہ جانے ایک سال سے پاکستان آنے کے بعد بس اسی لمحے کا انتظار ہو جیسے ۔
سارہ : عاطف ۔۔عاطف ۔۔
عاطف: ہاں سارہ ۔۔گلے لگا کر اسکی کمرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے
سارہ : کوففی پیو میرے ہاتھ کی کوففی کپ میں نکال کر دیتی ہے ۔
عاطف: کیسی ہو کیا حال ہیں ؟
سارہ :ٹھیک ہوں بس زارا کی وجہ سے پریشان اور تُمھارے میسیجز پریشان کردیتے تھے اب ایک ماہ سے اب پریشان ہونا چھوڑدیا ۔
عاطف: چلو اچھا ہے تُم ریلیکس ہوئیں سارہ ۔
سارہ : ہاں کہو
عاطف : یار میں ابھی دو تین سال تک کسی سے بھی شادی نہیں کرہا میری منگنی ٹوٹ گئی جو گھر والوں نے کینیڈین پاکستانی سے کروائی تھی
سارہ: اوہ تو تم اُسکے ساتھ بھی نہ ہوسکے کیا وجہ رہی ؟
عاطف: یار میں بُزدل نکلا اصل میں تم سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد شائد جلدی میں ، میں نے منگنی کرلی تھی امی ابو کے کہنے پر ۔
سارہ : تو اب ۔۔ کیا سوچا تم نے ؟
عاطف : منگنی لڑکی نے توڑی یار اتنی آوٹنگ میں نہیں کرسکتا ہر تیسرے دن آنا جانا تم جانتی ہے میں آوٹنگ اتنی نہیں کرسکتا میری نوکری تم کو معلوم ہے شفٹ بدلتی رہتی ہیں
سارہ : ہاں یہ تو ہے ۔
عاطف : محترمہ نے کہا جو شادی سے پہلے ساتھ نہیں چل سکتا شادی کے بعد کیسے ساتھ چلے گا انکی تو ایک صبح کی شفٹَ کی مسلسل نوکری تھی
دونوں کی کوففی ختم ہوجاتی ہے ۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوتے ہیں جذبات دونوں طرف
پگھلنے لگتے ہیں
عاطف ہاتھ آگے کرتا ہے
سارہ بے ساختگی سے ہاتھ اُسکے ہاتھ میں دے دیتی ہے
دونوں بیٹھے کچھ دیر کب اٹھ کر ایک دوسرے سے گلے لگ کر نہ جانے کب ایک دوسرے میں گُم ہوجاتے ہیں کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا
عاطف و سارہ بستر میں ۔۔
عاطف : سارہ یہ کیا ہوا ہم دونوں کو ایک دم ؟
سارہ : عاطف بس یہ ہماری آخری ملاقات تھی اور میں یادگار بنانا چاہتی تھی کہ پیچھے رونا و پشتاوا نہ ہو ۔۔ میرے جذبات یہاں آتے ہوئے میرے ساتھ نہیں تھے ۔
عاطف: پر میں تو یہ سب سوچ کر نہیں آیا تھا
سارہ : خیر جب پہلی بار ہوا تھا تو سب تُمھارے بس میں تھا آج سب میرے جذبات میں تمھارے جذبات بہہ گئے ۔
سارہ: اب ہمارے بیچ کچھ نہیں فقط دوستی اب میں اس سب سے آزاد محسوس کرہی ہوں بس اب اگلے سال زارہ میرے پاس پاکستان آجائیگی شکریہ عاطف تم نے بیٹی میرے حوالے کی ۔
عاطف: نہیں یار میں سمجھ سکتا ہوں مگر تم جانتی ہو میں ماں باپ کے بغیر تو سب کچھ کر گزرتا ہوں مگر ماں باپ کے سامنے ۔
سارہ : جانے دو اب اپنے آپ کو گلٹی فیل نہ کرو ، میں نے بھی کرنا چھوڑدیا ہے ۔
عاطف: تم نے تو بہت جلدی خود کو سنبھال لیا ۔۔عاطف کپڑے پہنتا ہے اور واشروم میں چلا جاتا ہے ۔
سارہ : بھی ودوسرے وآشروم میں جا کر کپڑے پہن لیتی ہے
سارہ : عاطف مجھے اندر سے اب ایک اطمیعنان ہے اندر سے بے سکونی مٹ سی گئی ہو جیسے
عاطف: کاش میں تم سے شادی کر پاتا
سارہ : یار چھوڑو شادی کو بس سنبھل جاو اور کہیں شادی کرلو ۔
عاطف: ڈاکومنٹس نکالتا ہے اور کہتا ہے پڑھ لو
سارہ: کہتی ہے تم کھانے کا آرڈر کردو میں پیپرز دیکھ لیتی ہوں جب تک
عاطف: چلو ٹھیک ہے میں ایک کام کرکے بھی آجاتا ہوں
سارہ: تمام کاغذات پڑھتی ہے مزید اطمیعنان کا ساس لیتی ہے سب سارہ کے حساب سے ہوا ہوتا ہے سارہ خوشی خوشی دستخط کرتی ہے
عاطف: آتا ہے کھانا لے کر دونوں کھانا کھاتے ہیں اور پھر دونوں الگ الگ کمرے میں سوجاتے ہیں ۔
کہانی آگے جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"