"کراچی لٹریچر فیسٹیول"

کراچی لٹریچر فیسٹیول وہ ایونٹ جس کے بارے میں لوگ کسی دوسرے ایونٹ کی نسبت زیادہ انتظار کرسکتے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے کراچی کی رونق بنا ہوا ہے اُن سالوں میں بھی جب دو ہزار نو سے دو ہزار تیرہ میں کراچی میں قتل و غارت ہورہی تھی ۔ اس کو شروع کروانے کا سہرا امینہ سید و فہمیدہ ریاض  کو جاتا ہے۔ جن کی کاوشوں سے اس سال اس کے دسویں میلے کا اہتمام ہوا ۔ 
یہ یکم مارچ دو ہزار انیس 
پانچ بجے بیچ لگژری ہوٹل میں شروع ہوا جس میں عوام پانچ بجے سے آنا شروع ہوئی ۔ 
آغاز میں فیسٹیول کے آرگنائزرز نے تقاریر کیں 
پھر گورنر سندھ عمران اسماعیل نے  
پھر بہترین لٹریچر فیسٹیول کا پرائز دیا گیا ۔ 
پھر گارڈن میں شیماء کرمانی کی پرفارمنس آو رقص کریں پیش کیا گیا 
جس میں انسانی ارتقاء کی بنیاد پر عورت  کے استحصال کی داستان کو رقص میں بہترین طرز پر بیان کیا گیا ۔ مگر طبیعت کی بے چینی کیوجہ سے دل نہ لگا خاص ۔۔۔
اسکے بعد گارڈن میں ہی 
فہد مصطفی،  یاسر حُسین ، منور سعید ، نبیل قُریشی اور آصف رضا میر 
میزبان : احمد شاہ
کے ساتھ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا ماضی حال و مُستقبل پر نظر ڈالی جس میں ہماری معاشرتی کمزوریاں اور ہماری سوسائٹی کا سینیماوں سے لاتعلق ہونا ایک طرف تو دوسری طرف کہانیوں کی کمی اور غیر معیاری فلمیں بننےکیوجہ بھی بتایا گیا پھر بول فلم سے سینیماوں نے جان پکڑی اور رفتہ رفتہ فلم انڈسٹری وقت کے ساتھ پھیلتی دکھائی دے رہی ہے یہ بھی بتایا گیا کہ فلم مستقبل میں اُمید کی جاسکتی ہے بہتر طرز پر اور چربہ نہیں ہونگیں ہمارے پاس فلم میں کام کرنے والے زیادہ آرٹسٹ بیک وقت موجود ہونگیں  ۔ 
اس سیشن کو چھوڑ کر دوست" عمران خان ہارا"  کے ساتھ کیفے کا رُخ کیا اور وہاں موجود پلاو جو تھوڑا مہنگا ضرور تھا مگر مزیدار تھا  وہ کھایا اور چائے کی ٹیبل پر کچھ دیر گفتو شنید کرکے گھر کی راہ لی ۔
دو مارچ 
صبح بارہ بجے کے بعد ت پہنچا تو مین گارڈن میں پہلا سیشن تھیٹر کے حوالے سےجاری تھا جس میں 
خالد انعم میزبان 
شرکاء :شیماءکرمانی ،کلثوم ،زین و ساجد حس شامل تھے
جس میں عوام کو تھیٹر کے ماضی، سماج میں تھیٹر کا کردار ، کس طرح آغا حاشر ، رفیع پیرزادہ پھر شیماء جی کے تھیٹر نے معاشرے پر اثرات مُرتب کئے ۔ تھیٹر کسی بھی فن کے شخص کو فنکار ایک آرٹسٹ بناتا ہے یہ اُسکا جذبہ ہوتا ہے ۔ تھیٹر کی زبوں حالی کیوجہ عوام تھیٹر مفت میں دیکھنا چاہتی ہے پیسوں میں نہیں جبکہ تھیٹر میں   سماجی مسائل کی آگاہی پیدا کرنے کا معاشروں میں اہم ذریعہ ہوتا ہے جبکہ اس میں فنکار کو اپنا جنون و سو فیصددینا پڑتا  ہے جبکہ ٹی وی میڈیا میں وہ دو فیصد دے کر پیسےبنالیتا ہے ۔ لہذا تھیٹر خالی پیٹ کرنے کو کون ترجیح دے یہ شکوہ بجا ہےلوگ پیسے کے لئے ٹی وی میں جا کر ٹی وی کے ہوجاتے ہیں مگر انسان معیشت کے بغیر چل نہیں سکتا ۔ بات ہوئی گزشتہ تین دہائی کی محنت کے بعد جو گزشتہ دوس سے عورت مارچ ہورہی اُس میں وہ خواتین و عورتیں بھی شریک ہوئیں  جنکو تھیٹر سے اپنے حقوق کی آگاہی ہوئی جس میں بلدیہ و اورنگی کی خواتین کے سوا شہر کے  مختلف حصوں سے خواتین شریک ہورہیں ۔
اسکے بعد اگلا سیشن جو اٹینڈ کیا وہ بھی گارڈن میں ہوا 
ندیم فاروق پراچہ کی کتاب 
پوائنٹس آف اینٹری انکاونٹر ایٹ دی اریجین سائٹس آف پاکستان 
میزبان: جارج فالٹن 
اس میں پاکستان کو  دہشتگردی کی پالیسی سے جو خمیازہ بھگتنا پڑا اُس پر بات کی گئی اور ہم کس سمت جارہے ہم آگے کی جانب جائنگے یا پیچھے کی جانب پاکستان کی گزشتہ پالیسی اور بھارت کی موجودہ پالیسی کیونکر ہوگئی  پھر بات ہوئی ہمیں کس جانب دیکھنا ہوگا لیفٹ یا رائٹ جس پر ندیم صاحب نے کیا ہمیں پریگمٹک ہونا ہوگا وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں کوئی لیفٹ ہے لیفٹ روس کے ٹکڑوں کے بعد دفن ہوگیا ۔ جو چین میں ہوا ماوزے نے کمیونزم کے ساتھ وہ بھی دیکھ چکے اب ہمیں آگے دیکھنا ہوگا انہوں نے راحیل شریف کی ڈاکٹرائن کو سراہا اور کہا ہم سیکولرزم کی جانب جارہے بغیر آئین میں سیکولر لکھے کیونکہ آئین میں اتنا گند بلا ڈالی جاچکی اسکو چھیڑا ایک طوفان اُٹھ جائیگا لہذا ہمیں سماج کو بدلنا ہے آپ نے دیکھا کس طرح کتنے لشکری  جتھوں و مذہبیوں کا ریاست نے خود سے دور  کرہی اگر ایک ساتھ کردیگی تو پریشانی ہوسکتی ریاست دھیمے دھیمے بہتری کی جانب جارہی ۔ اس  سب کو ندیم فاروق نے اپنی کتاب میں بند کیا  ہے ۔ 
اسکے بعد جوڈیشل ایکٹیوزم پرسیشن ہوا
میزبان اظہار سومرو کلچر کو پرموٹ کرکے کیسے شدت پسندی سے بچا جاسکتا ہےاس پر اظہار خیال کیا گیا لیکن یہ سیشن عوام کو سمجھ نہیں آیا کیونکہ وہاں کلچر و تعلیم کے وزیر صاحب تھے لوگوں نے وہاں تعلیم کے حوالے سے سوال کئے جنکا جواب اُلٹا عوام پر کُچھ ایسے ڈالنے کی کوشش کی کہ نورالہدی شاہ نے سندھ کا شہری گاوں دیہات جاکر دیکھے اور جبکہ سردار صاحب نے کہا جو سندھی گاوں سے شہر آجاتا اپنے اسکول کو پلٹ کر نہیں دیکھتا اگر ایک ایک سندھی اپنے گاوں کا ایک اسکول اون کرلے تو کیا بات ہے "جبکہ یہ کام وزارت تعلیم و اسکے اداروں کا ہے اب یہ صوبائی معاملہ ہے " ہرمعاملہ اگر این جی اوز یا پرائیوٹ سیکٹر یا پبلک دیکھنا شروع کردے تو پھر آپکا کیا فائدہ ؟ کس بات کی مراعات لیتے ؟ خیر یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہمیں انٹر فیتھ ہارمونی پر پروگرام کروانے کی ضرورت ہے جس سے مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں ۔ اس سیشن میں جذباتیت کے سوا کچھ نہ تھا ۔ 
سید نعمان الحق کی کتاب
تبصرہ خالد نعیم
میزبان عالیہ اقبال نقوی
اس میں غالب کی زندگی پر لکھی گئی مختلف کتابوں کا احوال بتلایا گیا اور کس نے کس سال لکھی جس میں الطاف حسین حالی کی لکھی کتاب کو سب سے زیادہ وزن دار بتلایا گیا تاریخ میں
نعیم الحق ریسیرچ کے شعبہ سے وآبستہ ہے انکی کتاب میں غالب کے کئی پہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی مشکل پسندی ، تکرار ، سائنسی نقطہ نظر ، خود پسندی وغیرہ
غالب کا نگاہ کا بار بار تکرار کرنا یا آئینہ کو مثل کرنا ۔
رحزن سے روشنی کے زروں کی بات کرنا
یا پھر سیلاب جانے کے بعد بھی پانی کے جھاگ کا لکڑی پر جمع رہ جانا
یہ سب مختلف زاوئیے جو غالب کو سب میں ممتاز کرتے ہیں اس سیشن میں اُنکے فارسی کام میں بھی ایسی مثل کے شعر بھی پڑھے گئے ۔
مگر لوگوں کی بدقسمتی کہ لوگ اس سیشن میں آپس میں کھسر پسر کرتے رہے ۔۔
اسکے بعد دو گھنٹے دوستوں کے ساتھ تفریح کرکے ہم قوالی سے
لُطف اندوز ہوئے اور گھر کو پونے گیارہ بجے پہنچے
جیسے میں نے کہا تھا تیسرے دن میں جلدی نہیں پہنچ سکونگا
دی اکانومی آف ماڈرن سندھ
شرکاء :عشرت حسُین ، شمشاد اختر، مُراد علی شاہ
ماڈریٹر: اعجاز اے قُریشی
ایشو یہ تھا یہ بات سندھ کے انکامکس پر تھر و کراچی پر ہوئی ، اکناکمکس کی ڈائمینشنز کے لئے جاب کس طرح دینگے کیا پالیسی ہے کس طرح نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں گے ،کیا کوئی پالیسی بنارہے ہیں کیا چیز کرہے ہیں وہ نہیں بتائی گئی درست طرز پر تھر پاور کول پروجیکٹ دو جون جولائی میں شروع ہوجائینگے جن سے تقریبا چھ سو چالیس میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکے گی "مگر اس سے آلودگی کا جو بوجھ اور نقصان برداشت کرنا پڑیگا اُس کو پس پُشت رکھا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا کے فور پراجیکٹ جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن اس سارے معاملے میں جو بات مجھے سمجھ نہیں آسکی انگلش بولی وہاں پر وہاں کے لوگ انگلش بول و سمجھ سکنے والے تھے سب اچھے سے سمجھتی ہے لیکن انہوں نے انگلش بولی لگ رہا تھا وہ ایک ایک جملہ کو پہلے اردو کرکے اسکی ترجمہ انگلش میں ٹینس کرنے پھر کہتے اتنا دھیرے دھیرے انہوں نے بات کی ۔ انہوں نے اتنا ٹائم لیا ایک جمہوری سی ایم ہونے کے ناطے انہیں اتنا وقت نہیں لینا چاہئے تھا کہ لوگوں کو اُن سے پوچھنے کا موقع ملتا جو کہ نہ مل سکا ۔اسکے بعد کا سیشن میں نے نہیں لیا دوستوں سے ملنے میں وقت گُزارا پھر اگلا سیشن جو تھا وہ بلوچستان کے دُکھوں کے بارے میں "دی سوروز آف بلوچستان " ہوا
جس میں قیصر بنگالی ، اکرام سہگل و ہماء بقائی شرکاء
ماڈریٹر : مُجاہد بریلوی
مگر وہاں یہ ہوا ہماء بقائی ماڈریٹر بن گئیں اور مجاہد بریلوی شُرکاء میں ہوگئے خود بخود مگر قیصر بنگالی نے ایک عجیب و غریب سی بات کی جو کہ ایک درست بات ہے مُجھے مختلف حکومتوں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے میں جو بھی بات کرونگا وہ اسٹیٹکس کے حساب سے کرونگا اور جو بھی تجاویز دیتا ہوں وہ میری کتابوں میں درج ہیں تو ترقی کی جانب سفر کیا جاسکتا ہے اُن پر کام کیا جائے تو بلوچستان کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے دوسری چیز انہوں نے یہ بتائی مالک صاحب کی حکومت نے ایک خاموش این آر او کیا تھا تمام تر مسلحہ بلوچ جتھوں سے جو آزادی کی مومنٹ چلارہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں امن ہوا تھا اور اسکی وجہ سے وہ ملک میں پُر امن بلدیاتی انتخابات کروانے والے پہلے وزیر اعلی بن گئے تھے اپنے دور میں ۔ یہ انکی کوششوں سے ممکن ہوا تھا اسکے سوا قیصر بنگالی صاحب نے کہا اُن کے کام اور محنت کو دیکھتے ہوئے مالک صاحب انہیں قیصر بنگالی نہیں قیصر بلوچ کہا کرتے تھے ۔جب وہ سندھ میں کام کرہے ہوتے تو سندھ میں انہیں قیصر سندھو کہتے تھے کہیں بھی کام کرتے تو ان کی ذاتی دلچسپی ایسی ہی ہر جگہ ہوتی جیسے وہ اپنا کام کرہے ہوں ۔بات یہ بھی ہوئی کہ بلوچستان کے حقوق کون مار رہا ہے کیسے مارہا ہے ۔ کئی فائلز پر ایسا ہوتا ہے اسلام آباد بُلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے اس پر دستخط کردو اور ایسے انکا حق کھالیا جاتا ہے اور وفاق کھاتا ہے پروجیکٹس ، جنکی فزیبلٹی بنی ہوتی ہے وہ بھی وہ ڈاکہ کون مارتا ہے اُس پر آپ خود سمجھدار ہیں ۔ اسکے بعد جو رئیسائی صاحب کے پاس سے جو ڈالر نکلنا اور جو بھی گیم تھا اُس پر قیصر بنگالی صاحب نے کہا میں نے آج تک کسی پبلک فورم پر نہیں کہا مگر آج میں کہ رہا ہوں وہ سب کا سب سارا کا سارا جھوٹ کا پلندہ ہے ایسا کچھ نہیں ہے وہ انکی جگہ و گھر نہیں تھا یہ سب میڈیا گیم تھا پیچھے کوئی اور وجوہات ہیں ۔ سوال جواب کا سیشن شروع ہوا تو وہ بڑے ناراض تھے کہ کوئی بلوچ رہنماء نہیں آپ بلوچستان کی بات کیسے کرہے ہو ؟وہ صاحب شور و غول کرکے وہاں سے چلے گئے لوگوں نے خوب تالیاں بھی بجائیں لیکن لوگوں میں برداشت کم ہے ظاہر سی بات ہے بلوچستان میں ستر سال کے ظلم و ستم کے بعد شکایت بے جا ہے وہ بڑی عمر کے تھے وہ چلے گئے ۔ اسکے بعد سوال کیا گیا کہ انکو وہاں پر نوکریاں نہیں ملتیں کیا چکر ہے تو قیصر بنگالی نے کہا بلوچستان کی آبادی پندرہ سے بیس لاکھ ہے اگر سرکار چاہے اگر بلوچستان میں وہاں کے لوگوں کو وہاں پر ہی نوکریاں دے دے.
پندرہ سے بیس لاکھ نوکریاں فراہم کردے تو وہیں کے لوگ بلوچستان کو لیڈ کرسکتے ہیں اگر ریاست چاہے تو حق دے دے غربت کا خاتمہ و حالات بہتر ہونا شروع ہوجائینگی ۔ پھر سوال اُٹھایا گیا کہیں ہم اقلیت میں نہیں ہوجائینگے کیونکہ دوسری قومیں وہاں آکر کاروبار کرینگی تو وووٹ انکا وہاں ہونے کا خدشہ اور ہم اپنے صوبے میں اقلیت ہوجائینگے ۔ جس پر قیصر صاحب نے کہا جب پاکستان بنا کراچی میں سندھی تقریبا ساٹھ فیصد تھے مگر ہجرت کرکے آںے والوں کی وجہ سے سندھی دوسرےشہروں میں چلے گئے اور سولہ فیصد رہ گئے کیونکہ مسلسل دس سال سے ہجرت کرنے والے بھارت سے آتے رہے کراچی میں مہاجر اکثریت ہوگئے وہ اقلیت ہوگئے کہیں بلوچستان کے ساتھ ایسا نہ ہو اس حوالے سے کیا کیا جاسکتا ہے تو اس حوالے پر انہوں نے کہا اس چیز کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اگر ریاست چاہے اقدامات کیئے جائیں ۔ اسکے بعد ہماری ایک سندھی خاتون اٹھیں انہوں نے کہا یہاں ہر بات ہورہی ہے ساری طرز کی ہورہی ہیں یہ ہورہا ہے وہ ہورہا ہے لیکن اہم نقطہ مسنگ پرسنز پر بات نہیں ہورہی جبکہ سندھ و بلوچستان کی بچیاں سیمی و سسوئی لوہار ایک عرصہ سے سڑکوں پر ہیں ۔ جس پر لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں والہانہ سوال کا اسقبال کیا گیا اسکے بعد اگلا سوال ساتھ ہی ایک لڑکی نے کیا کراچی کی کے ہم کراچی لاہور و پشاور کے نوجوان بلوچستان کے حوالے سے فکرمند ہیں ہم اُنکی آواز بننا چاہتے ہیں میں جتنے بھی دوستوں سے ملی لاہور و پشاور میں ہم سب بلوچستان کے حوالے سے بات کرتے اور بڑے پریشان ہیں وہاں کے حالات کو لے کر ۔ تو اس پر قیصر بنگالی نے کہا ہمارے وقت پر مجاہد بریلوی وغیرہ ہم لوگ مہینے کی جیب خرچی سے سائیکل پر کسی نہ کسی طرح پمفلٹ کبھی بنوا کر کبھی چھپوا کر دیواروں پر لگاتے تھے ماہ میں دوبار کسی نہ کسی بات کو اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج کیا کرتے تھے ۔ لیکن آپ کے پاس سب سے بڑا میڈیا ٹول ہے وہ ہے سوشل میڈیا آپ چاہیں تو بلوچستان کے مسئلے کو روزانہ ہیش ٹیگ کے ذریعے مسائل کی نشاندہی کرتے رہیں یہ لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے گا تو لوگوں کی اداروں کی توجہ جائیگی مسائل کا حل کرنا پڑیگا پھر انہیں کچھ وہاں کے مسائل سو فیصد نہ سہی مگر پچیس فیصد ہی سہی کرنے پر ریاست کرنے پر مجبور ہوجائیگی وہاں پر بہتری آنی شروع ہوجائیگی تو آپ کے پاس یہ بہت بڑی طاقت ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ شہروں کے لوگ دوسرے شہروں کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس سمجھ رہے ہیں کہ لوگ توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں یہ ایک اچھی خبر ہے ۔ پھر مزید بات یہ کی مجاہد بریلوی صاحب نے یہ مسائل میں سرداروں کا ہاتھ بھی ہے کہا ایسا نہیں ہے جب ستر کی دہائی میں جب بھٹو صاحب نے ایک جمہوری حکومت کو ہتٹا کر اکبر بگٹی کو لایا گیا اور اُس وقت بھٹو صاحب کے الفاظ تھے میں نے آج سرداروں کو ختم کردیا ۔ تو اکبر بگٹی آگے بڑھے ایک نوکر کے ہاتھ میں جلتا ہوا کوئلہ رکھ دیا جب تک بگٹی صاحب نے نہیں کہا وہ رکھا رہا
تو بگٹی صاحب کے کہنے پر اُس نے جب کوئلہ گرادیا تو بگٹی نے کہا سرداری سسٹم تو یہ ابھی بھی ہے ۔کہا اگر درست طرز پر کام کرنے کی کوشش ہو کہ جمہوری حکومتیں نچلی سطح تک بنیں اور انہیں کام کرنے دیا جائے تو وہاں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔پھر ایک جانب سے سوال آیا کہ کرپشن بھی ایک بڑا مسلہ ہے اس سیگمینٹ کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے اور اکاونٹبلیٹی و انصاف پر کام کرنے کی اس کو بھی ٹھیک کرنا ہے ۔ جب گزشتہ سینیٹرز کے انتخابات ہوئے تھے تو سینیٹرز بیس بیس کڑوڑ میں بکے تھے اور این ایف سی آیوارڈ کے بعد ہر نمائندے کو چار سے پانچ سال تک یس کڑوڑ روپے سالانہ ملا اُسکا اس نمائندے نے کیا کیا اسکا حساب لینے کے لئے بلوچ کو آواز اُٹھانی ہوگی اور ریاست کو دیکھنا ہوگا جو سب سے زیادہ اچھی تھی اس سیشن کے اندر کہ بلوچستان کے بارے میں لوگ سننا بولنا بات کرنا چاہ رہے تھے اور سیشن شروع سے ہی بھرپور بھرا ہوا تھا ہر قوم کا بندہ بلوچستان کے معاملے پر تشویش زدہ تھا ۔ اس پر ایک صاحب نے کہا بلوچستان اپنا فیصلہ خود کرے ہم اُس کی آواز بنیں گے جس پر مُجاہد بریلوی نے کہا دیکھیں ایسا ممکن نہیں تہتر کے آئین پر سب مینگل مری سب کے دستخط تھے لہذا آپ کی اس بات سے میں متفق نہیں ہاں جو وہ اپنے صوبے کے لئے جو قانون یا جو نظام چاہتے ہیں اُسکی حمایت کرنی ہوگی بلوچستان کی اسمبلیاں مسلسل پاکستان کے ساتھ وفاق میں رہیں ہیں وہاں سے سینیٹرز بھی ہیں اور ماضی بھی تھے ۔ پھر سیشن خاصہ لمبا ہوگیا تھا کوئی دس منٹ اوپر اسکو ختم کیا گیا لوگوں نے تالیاں بجائیں .
اسکے بعد انور مقصود کی ٹاک تھی
جو میں نے پوری طرح سے نہیں سُنی مجھے مزہ نہیں دی نہ جانے کیوں مگر ایسا ہی تھا پھر
شارٹ فلم رانی جس میں کامی اکبر الانہ و کرن ایدھی شرکاء تھے
ماڈریٹر : ضرار کھوڑو
فلم رانی کا پریمئیر پیش کیا گیا وقت سے پہلے اس میں بھی لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا یہ تیسرے دن کی آخری بہترین چیز تھی کہ لوگ ٹرانسجینڈر کے بارے میں تفریحی نہیں سیریس قسم کی گفتگو سننے و جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے . اس میں ایک ٹرانسجینڈر کی زندگی کی مشکلات بتائی گئیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ٹرانسجینڈر کے متعلق اتنی آگاہی فراہم نہیں کی جاتی یا انکے مسائل اجاگر نہیں کئے جاتے ایک سادہ سی فلم تھی مگر بڑا کم اس طبقے کے بارے میں سننا و بات کی جاتی ہے کچھ عرصہ سے اب انکے بارے میں لوگوں نے بات کرنا شروع کی یہ بھی اپنی جدوجہد کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں کسی حد تک اب لوگ سمجھنا چاہتے کچھ کرنا چاہتے ہیں ایک فلم تھی۔
کامی سڈ ایک کھلونے بیچنے والا ٹرانسجینڈر ہے جو کھلونے بیچ کر پیسے کماتا ہے ناچ گانے کی جگہ مگر ایک دن ایک بچی اُس کا کھلونا لیتی ہے تو اُس سے ایک کھلونا گرجاتا ہے وہ بچی کو پیار سے ہاتھ لگاتا ہے تو اسکی ماں کہتی ہے ان سے دور رہو ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے یہ جملے کس قدر اُس پر گراہ گزرتے ہیں ایک ٹرانسجینڈر کے وہ دکھایا گیا پھر دکھایا گیا وہ کھلونے بیچ رہا ہوتا ہے تو دو لڑکے آکر اسکے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہین اور اسکو زدوکوب کرکے اسکا ٹھیلا گرا کر لاتیں مار کر نکل جاتے ہیں وہ روتا ہوا رات کو گھر کی جانب جاتا ہے تو ایک ایدھی جھولے میں بچے کو رکھتا دور سے دیکھتا ہے تو وہاں جا کر خاموشی سے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر اسکو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور کامیاب ہوجاتا ہے پھر گھر لے کر جاتا ہے اپنے جہاں اسکا ایک اور ساتھی پہلے کہتا ہے کیا چھپارہے ہو اسکے بتانے پر بتاتا ہے پہلے وہ منع کرتا ہے پھر راضی ہوجاتا ہے کامی کا عزم دیکھ کر کامی اور اسکا ساتھی کچھ دن اسکو پالنے کی کوشش کرتے ہیں ٹرانسجینڈر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی معاشی حالت سے مجبور اسکو وقت نہیں دے پاتے تو کامی ایک رات اسکو وآپس لوٹانے جاتا ہے اسکے لئے گئے کھلونوں و کپڑوں کے ساتھ تو وہ آدمی اس سے پوچھتا ہے کچھ سوال پھر وہ کامی کی حالت دیکھ کر اندازاہ لگالیتا ہے وہ اسکو نوکری کاپوچھتا ہے اور یہاں فلم ختم ہوجاتی ہے ۔۔ اسکے بعد میرے اندر سننے کی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی تو میں دوست کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا کرکے آخر میوزک شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد گھر کو ہولیا اس طرح کراچی لتریچز فیسٹیول اپنے اختتام کو پہنچا ۔
x

اسکے بعد یہی غالب اے نام عوارم ڈیڑھ سو سالہ آپ بیتی 
کراچی لٹریچر فیسٹیول تیسرا 

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"