کہانی قسط نمبر آٹھ

آٹھویں قسط
سارہ : آفس میں کام اپنی ٹیم کو دے کر ، جنید کو ایکسٹینشن کرتی ہے کچھ بات کرنی ہے فری ہو تو آوں ۔
جنید: دوسری طرف ہاں آجاو کام آج کم ہے میرے پاس کچھ
سارہ: کمرے میں داخل ہوتی ہے جنید مجھے کچھ دنوں کی چھٹیاں چاہئے
جنید: کیا شادی کے لئے یا کس وجہ سے ایپلیکشن دے دو میں اپروو کردونگا
سارہ: ہاں بس دس بارہ دن کی چاہئے
جنید : ایسا کرو آج تو منگل ہے اگلے منگل سے لے لو ۔
سارہ: کچھ سوچتے ہوئے نہیں مجھے اس مہینے نہیں اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی چاہئے ۔
جنید: کلینڈر پر نظر ڈالتے ہوئے اچھا پر سنو پہلے پیر آجانا اگلا مہینہ پیر سے شروع ہے ۔
سارہ: اچھا چلو ٹھیک ہے ۔
جنید سارہ کے جانے کے بعد توقیر و بابر کو بلاتا ہے کمرے میں اور ساتھ لبنی بھی آجاتی ہے جبکہ سارہ ۔۔آفس سے باہر نکل جاتی ہے ۔
جنید : یار دیکھو سارہ اگلے ماہ چھٹیوں پر جائیگی تو ہم کو سب کچھ دیکھنا ہوگا
تم سب لوگ اس سے تھوڑا کام لے لو کیونکہ اس کے پاس نئی ٹیم ہے بالکل فریش ہے ابھی سال ہونے کو ہے وہ لوگ اتنی اچھی طرح کام سنبھال نہ پائیں ۔
سارہ: اتنے میں ایک دم سے اندر آتی ہے روم میں ارے تم سب لوگ یہاں کیا میٹنگ چل رہی ہے میرے پیچھے ۔
توقیر: کچھ نہیں تم چھٹیوں پر جارہی تو جنید صاحب پریشان ہورہے ہم سے کہ رہے کام سنبھال لیں تھوڑا بہت آپ سب لوگ ۔
جنید: ہاں یار کام کا لوڈ کسی پر نہ ہو ۔
سارہ: مُسکراتے ہوئے میری ٹیم سارا کام وقت پر کرلے گی نہ اوور ٹائم کی ضرورت پڑیگی نہ آپ لوگوں کی مدد کی میں نے ٹرینڈ کردیا ہے مکمل
جنید: واہ ۔۔سچ؟ چلو میں ریلیکس ہوجاوں میں تو بس گاڑی کی چابی اٹھانے آئی تھی
جنید: چلو یار سب اپنے اپنے کام میں لگ جاو میں جارہا ہوں توقیر یہ دو فائلیں دیکھ کر ای میل کردینا اس بارے میں آفس کے دروازے سے سب کو بائے کہ کر نکل جاتا ہے ۔
کچھ دیر بعد آفس میں سب ریلیکس روم میں بیٹھے بات کرہے ہوتے ہیں
لبنی : یار سارا جب آئی تھی کتنا بولتی تھی شروع کی ملاقاتوں میں اور اب ایک سال ہونے کو آیا اب صرف جواب دیتی ہے یا ہر ایک گھنٹے بعد موبائل دیکھتی ہے
کچھ سمجھ نہیں آتا ۔
توقیر: ہاں کچھ لوگ کام کے دوران نہیں بولتے زیادہ کام کے بعد بھی وہ کام کی بات کرتی تھی کام سے کام رکھنے والی ہے نہ کسی کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کی ۔
بابر: یار میں نے سن رکھا ہے جو زیادہ کام سے کام رکھتے ہیں خطرناک ہوتے ہیں ؟ یا میں نے غلط سُنا ہے بتاو تم لوگوں
لبنی : ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا کیا معلوم وہ زندگی میں بہت آگے جانا چاہتی ہو ۔
توقیر: جو لوگ بہت آگے جانا چاہتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اکثر ۔۔۔خاموش سا چہرہ ساکت ہوجاتا ہے ۔
لبنی : کرلو بات کیا ہوا توقیر بول دو ہم سب دوست ہیں ۔
توقیر: یار ابو نے ساری زندگی وکیل کے لئے محنت کی شہر کے بڑے وکیل بن گئے مگر امی اور میرے ساتھ وہ وقت کھودیا اب ابو پورا وقت گھر پر دینا بھی چاہیں تو بھی چار گھنٹے سے زیادہ بمشکل دے پاتے ہیں ۔
بابر: یار مگر کم سے کم بندہ ہم مڈل کلاس لوگوں کی طرح خوار تو نہیں ہوتا
لبنی: سارہ کی بات چل رہی تھی کہاں چلے گئے سب کے سب کہاں سے ۔
بابر: یار میں ایک بات سوچ رہا تھا ۔۔ کہوں ؟
توقیر: کہو بابر میاں آج تم سے کھانا ہے ہم نے ۔
بابر: کھانے کا مسلہ نہیں میں سوچ رہا تھا جنید و سارہ کی شادی اگر ہوجائے تو
کیسا رہیگا دیکھو مجھے ایک اچھی بھابی مل جائینگی ۔۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں ۔
لبنی : بابر تم نے یہ رشتے لگوانے والی نوکری کب سے شروع کی میرا تو کروایا نہیں رشتہ ۔
بابر: نہیں اصل میں ، میں کچھ دنوں سے انکو ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور بات کرتے دیکھ کر سوچا دوست دور کیوں جائیں قریب ہوجائینگے ۔
توقیر: سارہ اچھی بندی ہے مگر جنید و سارہ بھی پسند کرتے ہیں ایک دوسرے کو ؟
لبنی : یہ تو تم معلوم کرسکتے ہو تم تینوں آپس میں قریب ہو زیادہ
توقیر: نہیں ایسا نہیں ہاں مگر تھوڑا قریب ضرور ہوں گھر قریب ہونے کی وجہ سے ۔
دوسری طرف "سارہ باہر رہ کر ایک ریلیشن میں رہ چکی ہوتی ہے جس سے اسکی اولاد ہوتی ہے جو پانچ سال کی اگلے سال ہوگی تو سارہ کے پاس آجائیگی ، جو آنے والا" خوبصورت لڑکا" شخص ہے وہ سارہ کا کینینڈا کا پاکستانی کینیڈین بوائے فرینڈ تھا جس سے کسی وقت قُربت میں یہ بچی پیدا ہوگئی تھی ۔
سارہ: کال کرتی ہے پوچھتی ہے پہنچ گئے آپ
دوسری جانب : جی پہنچ گیا
سارہ : میں اپ سے کچھ دن میں ملونگی
دوسری جانب : بس ڈاکومنٹس میں لے آیا ہوں تم سے ملنا ہے یار
سارہ: ہاں یار ہم دوست رہینگے شادی نہیں کرسکے ہم مگر دوستی ختم نہیں ہوگی ۔
دوسری جانب: ہاں اب پریشان نہیں ہونا میں پریشان نہیں کرونگا
سارہ: بچی کی وجہ سے پریشان تھی اب اچھا کمالیتی ہوں یہاں اب نہیں پریشانی
اگلا سین
توقیر: کال کرتا ہے سارہ کو ملنے کا کہتا ہے گھر آو بات کرنی ہے والد صاحب اور مجھے
سارہ: یار ۔۔ اس وقت اچھا انکل ہیں تو میں آتی ہوں ۔
دروازے کی بیل بجتی ہے ۔
توقیر : سلام یار سارہ آو ۔
شاہ : سلام بیٹی کیسی ہو کہا غائب ہو انکل سےملتی نہیں
سارہ: انکل ایسی کوئی بات نہیں بس کام میں لگ گئی تھی آفس نیا تو ملاقات نہیں ہو پائی ۔
شاہ : بیٹی تم میری بچیوں کی طرح ہو میں تم سے ذاتی بات کرسکتا ہوں نا ؟
سارہ: جی انکل بالکل ۔
شاہ : بیٹا دیکھو میرا یک بیٹا توقیر ہے اور دوسرا جنید ، جنید کو لے کر تھوڑا فکر مند ہوں اسکے ماں باپ ہیں تو مگر الگ الگ رہتے ہیں ۔
سارہ : جی مجھے علم ہے اس بارے میں بتایا تھا اُس نے
شاہ: بیٹی میں سوچ رہا تھا جنید اور تم ایک ہوجاو
سارہ : انکل میں ابھی اس بارے میں نہیں سوچ رہی اگر ہم اس بارے میں دو تین ماہ بعد بات کریں تو
جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"