Posts

"بھول"

وحشتیں حد سے بڑھ جائیں تو اکثر خود سے روٹھ جاتا ہوں لوگ کرتے ہیں ,میرے درد کی بات میں اپنے درد بھول جاتا ہوں جب بھی تیری گلی سے گزروں اپنے دیوار و در بھول جاتا ہوں عجب طلسم ہے تیری یادوں کا اپنی روح کے زخم بھول جاتا ہوں اکثر ہاتھ اٹھاؤں جو دعاؤں کے لئے تیرے نام کے سوا سب بھول جاتا ہوں تحریر: محسن علی

"حقیقت زندگی کے رنگ" # 20 " ہلکا پھلکا تشدد"

ایک مجھ جیسے بندے پر ہلکا پھلکا تشدد یہ کیا جاسکتا ہےاس کے سالن میں مرچ سامنے رکھ دی جائے تاکہ وہ مزید کم کھائے ڈر کے مارے .. (تحریر محسن علی)

"حقیقت زندگی کے رنگ" # 19 "محبت کی وجہ"

دل سے نکلی بات محبت کی وجہ بنتی ہے , میرے لئے کیونکہ جو عشق میں نے کم عمری میں کیا مجھے بس اسکا انداز گفتگو اور عزت سے بات کرنا انتہائی بچپنے میں گرویدہ کرگیا تھا وہ جدا تو ہوگیا مجھ سے مگر محسوس اکثر ہووتا ہے ..اسی طرح ایک دوست جو بہت کم عرصے میں عبادت کی طرح ہوگیا میں نے اس اور وہ بھی اسکا انداز بیا تھا اور سن نا انہماک سے ,اب وہ میرے وجود کا حصہ نہیں بلکہ میری ذات کا صدا حصہ رہےگی تومیری نظر میں محبت کا پہلو یہ ہے , محبت کے تین درجے ہیں پیار محبت اور عشق پیار اتنی تکلیف نہیں دیتا اور زیادہ تر لوگوں کو ایک عمر بعد چہرہ یا نام یاد بھی نہیں رہ پاتا , جبکہ محبت پھر یاد رہ جاتی ہے مگر پوری طرح آپکو نہیں گھلاتی اگر نہ ملے جبکہ عشق آپ کے ذہن اور دل کو گھری چوٹ دیتا ہے کہ آپ سنبھل نہیں پاتے اور تنہائ کی انتہا وحشتیں بڑھادیتی ہیں آپ یا تو ان وحشتوں سے بھاگتے ہیں یا کسی کو وحشتوں کا ساتھی بنالیتے ہیں . تحریر: محسن علی "حقیقت زندگی کے رنگ" # 19

"پیاس"

پیاس ہے کے بجھتی نہیں شام ہے کہ ڈھلتی ہی نہیں تیری یادیں اتنی گہری ہیں اک عمر ہوئی مگر ڈھلتی ہی نہیں تحریر: محسن علی

" نشہ"

شرابیں بہت سی پی نشہ ان میں کم لگا .... تیرے رخساروں سے جو پی تو جینے کا من کرنے لگا. تحریر : محسن علی

"کال"

ساری شام فون پکڑے  کرتے رہے ہم انتظار   تم نے جو ایک بار کہا تھا   کروگے کال ہم کو یار   شام بیتی ,رات بیتی مگر ہاتھوں میں اب فون اب تک یار  جانتے تھے تمھاری یہی جھوٹی باتیں  مگر پھر بھی کرہے ا نتظار  تیری محبت جھوٹی ہوگی پر  میری چاہ سچی ہے میرے یار تحریر: محسن علی 

"لوٹ آؤ .."

لوٹ آؤ ....! کہاں گئے تم .. لوٹ آؤ نہ کہ ادھورے ہیں ہم لوٹ آؤ کہ ..میری  وحشتوں کو نا بڑھاؤ تم لوٹ آؤ نا میری نا مکمل عبادت ہو تم لوٹآؤ نا ...خواب کردو پورے تم... لوٹ آؤ نا زندگی کا چین ہو تم.. لوٹ آؤ نا بہت بکھریں ہیں ٹوٹیں ایک دوسرے میں ہم اور تم... تحریر: محسن علی .

9/11 اثرات

اس واقعے سے پہلے کا پاکستان جہاں کچھ تعداد می لڑکیاں اور عورتیں شہروں میں کم تھیں جو عبایا تو نہیں برقعہ لیتی تھیں میری اپنی کلاس کی اور اسکول کی چھٹی کلاس تک بھی اسکرٹ پہن لیا کرتی تھیں جبکہ مجھ سے ایک کلاس سینئر ایک لڑکی نے تو آٹھویں جماعت تک اسکرٹ پہنا لیگین کے ساتھ نہ کوئ پرواہ نہ کوئی اسکو ایسے گھورتا تھا.ہم پارک میں نویں دسویں تک جاکر اسکول کی سینئر لڑکیوں کے ساتھ آراام سے عزت سے کھیل .کھو کھو وغیرہ کھیل لیا کرتے تھے پھر جب میٹرک کے سپلی لگے تو اس وقت  اسکول کی لڑکیو ں کا آنا بند ہوگیا عبایا اسلامی لباس نہیں جیسے شلوار کمیز اسلامی لباس نہیں حتیٰ کہ اسلام میں صرف حجاب کرنے کا حکم ہے نقاب کا نہیں لیکن کیا کریں معاشرے میں برے کام کرنے ہوں تو اسکا استعمال ضروری ہوجاتا ہے مثلاً بچی کے ساتھ ڈیٹ پر جانا ہو تو بچی عبایا پہن کے آتی، زنانہ محفل میں مردوں کی دلچسپی ہو تو مرد پہن کے محفل میں حصّہ لیتے اور جب پھٹنے والی ہو تو مولانا عبدالعزیز جیسے لوگ عبایا پہن کر کٹنے کی کرتے ہیں... یہ ۲۰۰۲کی بات ہے اور جنا ب پھر یہ جو افسوس نا ک واقعہ ہوا تو لوگوں نے اسامہ نام ایسے رکھنا شروع کردیا 

"ہمکلام"

جب اپنوں سے بھی حال پوچھنا محال ہوجائے ایسے میں اپنی ہی وحشتوں سے ہمکلام ہوا جائے (تحریر: محسن علی)

" اداسی"

نہ جانے یہ اداسی کیوں  پھر   بھی روح پیا سی کیوں   مگر غم سب ہی کے سا نجھے ہیں پر اس جگ میں وہ لوگ کہاں جو ہر دکھ بانٹیں ہیں .تن بھرا یہاں سب ہی کے روحیں سب ہی پیاسی ہیں وجہ پھر تم کیو ںپوچھتے ہو .پھر یہ اداسی کیو ں (تحریر: محسن علی )

"کانٹوں"

کانٹوں پر چلنے والے دے دے کوئی  زندگی ہے میری گلاب کا بستر نہیں کوئی (تحریر: محسن علی )

"وحشتیں"

آپ بھی رویا کرینگےروز پہلو بدل کر اس طرح جب وحشتیں ستائنگی   آپ کو  میری طرح  (تحریر: محسن علی )

" سوچ" Shair

میں یہ سوچ کے روز مرجاتا ہوں کہ جی رہا ہوں تیرے بغیر وگرنہ مرنا اگر ایک بار ہونا تو جینا کتنا آسان ہوتا (تحریر: محسن علی )

"ویران"

سنو ! وحشتیں بے لگام ہوجاتیں ہیں تو وہ تجھ سے ہمکلام ہوجاتی ہیں مگر آج تم نہیں ہو تو وہ میری ہی تنہایوں کا قتل عام کرتی ہیں  یہ جو تم چلے جاتے ہو نہ چھوڑ کر تمھیں کیا خبر یہ کس قدر رات بھر پریشان کرتی ہیں جانتا ہوں تمھاری وحشتیں مجھ سے زیادہ تمہیں حلقان کرتی ہیں یوں چھوڑ جاتے ہو تم ہجر کی رُت میں تنہا کبھی سینے سے لگو تو جان سکو کہ روح کو کس طرح ویران کرتی ہیں . (تحریر: محسن علی )

"میدان"

نہ جانے کتنی قبریں اور بنیں گی اس دل کے قبرستان میں  دل ابتک آباد بھی نہ ہو مقتل بچھ گئے اس میدان میں ہندو,مسلم سکھ, عیسائی سب نے مارے اس دل کے مارے اس دلِویران میں سارے مذہب و مسلک مل گئے نہ ملے انسان ہمیں  تیزاب ڈالو آگ لگادو گولی مارو چپ رہو تم سب اپنے مکان میں کل کو جب لاش اٹھاؤ , غم اٹھاؤ تو پھر شکوہ نہ کرو اس جہاں سے بندوق گراؤ ,قلم اٹھاؤ ,وقت ہے ابھی نکلو تم میدان میں .. تحریر : محسن علی نوٹ: احمدی ڈاکٹر کے قتل پر ..جو چار جون کو قتل کردئے گئے لاہور میں ...

"وحشتوں

کتنا اذیت دیتا ہے .. نا  اپنی وحشتوں سے ہمکلام ہونا خود کو آغوش میں اسکی کھو دینا   ساتھ ہوتے ہوئے بھی منزل کو جدا کرلینا تحریر : محسن علی

"حال دل"

حال دل اب اپنا پوچھتا نہیں ہے کوئی  ہماری جب سے دکھوں سے دوستی ہوئی تحریر : محسن علی 

"شرائط"

تمھاری شرائط ..ہمیں دور کردینگی محبت میں کبھی کوئی دستاویزات نہیں ہوتے تحریر : محسن علی 

"چاہ"

اچھا تو نہیں لگتا بار بار کہنا مگر پھر بھی .. نہ جانے کیوں لگتا ہے تم ہی ہو وہی ضد نہیں عادت نہہں چاہ ہو میری تحریر : محسن علی 

"آغوش"

تیری آغوش میں رات بھر بیٹھ کر ینگے ہم صدیوں کاسفر لمحوں میں طے کرینگے تحریر : محسن علی