Posts

" چائے " 3

Image
" چائے " یوں نہیں ہو سکتا , تم کاندهے پہ سر رکهو، کچه کہ کے چپ ہو جاو، میں تم کو دیکهوں , تم کہیں کهو جاو،  چائے کی پیالی لبوں سے لگا کے, تم مجه میں دهواں ہو جاو . تحریر:محسن علی

"چائے..". .. 2

Image
"چائے..". جب بهی میں پیتا ہوں ، اس کے دهویں سے، چہرہ اس کا سامنے آ جاتا ہے، جب تک چائے کی آ خری چسکی نہ لے لوں ، اس کا چہرہ مسکراتا میرے سنگ چائے پیتا، مجهے حوصلہ دیتا، کہ میں تمہاری ہوں، تمہیں نہ کرنے کا مطلب تمہیں ناکام کرنا ہے، دیکهو میں اپنی پسند پہ زندگی نہیں گزار رہی، تو تم بهی میرے جیسے بننے کی کوشش کرو، دیکهو تم خود کو چهو کے مجهے چهوتے ہو، ایسے ہی میں بهی، خیالوں کے گمان میں یہ گناہ کرتی ہوں، مگر محبت نہیں کرتی، اور چائے کی آخری چسکی لے لیتی ہوں. تحریر:محسن علی

"چائے "....1

Image
"چائے ".... دهیمے دهیمے دهواں اڑاتی، کیٹل سے، پانی اور پتی کو ملاتی جیسے، روح اور جسم،  اس میں سفید دوده جیسی خوشیاں، اور پهر چینی ، جیسے کچه رومانوی پل ، جب چمچہ چلے اس میں تو، جیسے زندگی کے طوفان پر کرتی .....چائے.  تحریر:محسن علی

پاکستان سے غائبستان کا سفر

                            پاکستان میں غائب ہونے کا سفر آغاز سے ہی شروع کردیا تھا جسکی پہلے کڑی قائد اعظم پھر لیاقت علی خان پھر رفتہ رفتہ سول حکومتوں کو پیچھے سے اٹھک بیٹھک کرواتے رہنا اور پھر آخرکار ایوب خان نے ایک دہائی تک سول حکومت غائب کردیجس کے درمیان میں پینسٹھ کی جنگ جو کہ ہم نے   ”جیتی“  کی تاریخ غائب کردی گئی پھر اسکے بعد بنگالیوں کوغائب کردیا گیا نقشے سے،پھر بھٹو صاحب عوامی رائے سے ملک پر حکمران بننے اور پھر مذہبی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر دوسری ترمیم کروادی جس سے پھر احمدی حضرات غائب ہونا شروع ہوگئے  ”کبھی جان سے گئے کبھی ملک سے بھاگے“۔اسکے بعد ہم نے یہ سفر کچھ تیزی سے طے کیا اور ہم نے بلوچستان کے بارے میں ملکی سطح پر خبریں غائب کرنی شروع کردیں،مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے دور میں پی پی کے لوگ تیزی سے غائب ہوتے گئے۔اس سلسلے کو بانوے سے ننانوے تک دو جمہوری دور میں بہت تیزی ملی غائب ہونے کی روایت کو مگر مجال ہے کہ قومی سطح پر کسی نے کان دھرے ہوں اس غائب ہونے کے بار ے میں کیونکہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی لے کر مسجد یں بیٹھے رہے۔ پھر یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں دیکھنے ک

"ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے"

ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے اس لئے ہم سب کے کاکڑ صاحب نے خالہ کا کردار ادا کرتے ہوئے چھوٹے قاتل لدھیانوی کا انٹرویو چھاپہ تو ریاست کو بھی اپنا بیٹا بڑا قاتل احسان اللہ احسان فخر پاکستان "قاتل پاکستانی" کو فی الفور اسپیس دینی پڑی ۔۔شکریہ راحیل شریف کا بھجن پڑھنے والے شکریہ پاک فوج کے ترانے نہیں بجارہے نہ کسی غیرت بریگیڈ کی غیرت جاگ رہی نہ استعفی دو محافظ قاتل باجوہ کے نعرے نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کی عزت کو دھچکا لگا ایک چھینک کی آواز نہیں سنائی دی گئی میڈیا پر جبکہ سپری م کورٹ سوموٹو بھی نہیں لیا کہ کس قانون کے تحت پاکستانی عوام کے قاتل کو قوم کا بیٹا دیا گیا ہے کسی نے پٹیشن بھی درج نہیں کی ، جی کیا اسلامی یا لبرل پاکستاں میں ہزاروں قتل کرنے والے کو کس اصول کے تحت معاف کیا گیا ہے کیا مقتولین کے خاندان والوں نے معاف کردیا ۔۔نہیں مگر ایک سوئی نہیں گریگی ۔۔ مردہ باد مردہ باد باجوہ مردہ باد، نوازشریف مردہ باد ،زرداری مردہ باد، اسفند یار ولی مردہ باد، عمران خان مردہ باد۔۔  مردہ باد مردہ باد پاکستان کے قاتل اصول مردہ باد، قاتلوں کو پناہ دینے والے مردہ باد ، انکو سزا کے

"ہم نیلسن مںڈیلا"

"ہم نیلسن مںڈیلا"  پاکستان کی ریاست و قوم کو شائد ریاستی طور پر نیلسن منڈیلا بننے کی انگڑائی لی ہے یوں تو یہ بات میں نے گزشتہ سال اپنے ایک کالم میں کی تھی کہ سیاسی رہنماوں کو عام معفافی تلافی دے دییں اور تمام تر فرقہ پرستوں کو بھی ، اس کے بعد نیا سوشل کںٹریکٹ کرکے سب کو معاف کردیں اور پھر مسلکی کتابوں کا مسودہ نئے سرے سے تشکیل کریں جس میں رواداری کا پہلو نمایا ہو ، مگر اس سوشل کنٹریکٹ کے لئے قوم کی مجموعی سوچ سے رائے لی جائے جن کے رفقاء و عزیز شہید ہوئے ہیں انکی نوکریوں کا مستقل بندوبست کرے سات جو معذور ہوئے ان کے لئے بھی پہلے ریاست کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات کرے۔۔ یہ سب کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کرتی کہ ریاست ایسا کرنے جارہے ہے کیا عوام الناس اس سے متفق ہے یا نہیں اور پھر عوام کی آراء کے مطابق نیا سوشل کنٹریکٹ کرکے فوج کو بلوچستان اور کراچی سے وآپس بلا کر سیاسی قائدین کو ملک میں وآپس بلا کر اور دہشتگردوں کو آخری نوٹس دے کر تسفیہ کیا جاتا ، اگر قوم کی اجتماعی سوچ دہشتگردوں اور قاتلوں کو پھانسی کے حق میں ہوتی تو لازمی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہئے تھا مگر کیا کر

دھتکارے ہوئے لوگ ( سندھو لغاری)

Image
            15 مارچ 2017  |  سوجاگ سے لی گئی تحریر        تحریر کرنے والی کی اجازت سے         سندھو لغاری سندھ کے شہر حیدرآباد کی گڑھی نواز کالونی کی تنگ، بدبو دار اور خستہ حال گلیوں سے گزرنے کے بعد خواجہ سراؤں کے گھر نظر آتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا اپنے گھروں میں اکیلے یا پھر کسی دوسرے خواجہ سرا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ناچ گانا کرکے پیٹ پالتے ہیں اور کچھ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دس بارہ جماعت پڑھے ہوئے ہیں مگر کہیں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے یہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹی عمر کے ناپختہ کار خواجہ سرا اپنے گُرو کے مقلد ہوتے ہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ گُرو ان کی نہ صرف رہنمائی کرتے بلکہ حصول معاش میں بھی مدد کرتے ہیں۔ یوں ان خواجہ سراؤں کا زیادہ تر انحصار اپنے گرو پر ہوتا ہے۔ آخر انہیں اپنا گھر کیوں چھوڑنا پڑتا ہے؟ بیشتر خواجہ سراؤں بتایا کہ ماں باپ کے علاوہ دیگر اہل خانہ والوں کا برتاؤ اُن کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ کچھ نے تو کہا کہ باپ کا رویہ بھی ان سے نامناسب تھا۔ خواجہ سرا 'بندیا' اب بھی اپنے خاندان کے س

"ورق ورق"

ہم...ورق ورق پڑھتے ہیں ہم زندگی عرق لکھتے ہیں ہم ہر لفظ لکھنے سے پہلے سو بار جیتے مرتے ہیں ہم افسانوں میں ملتے ہیں گزرے زمانوں میں ملتے ہیں کبھی کبھی اہل قلم لوگوں کو قلم کی سیاہی میں ملتے ہیں تاریخ و تہذیب اور اخلاق ہم ہر دور کی تحریروں میں لکھتے ہیں ہم خاک نشین اکثر مرنے کے بعد ہی زندہ ملتے ہیں ریاست ہو یا اہل سیاست سب ہر دور میں ہم سے ڈرتے ہیں جو چاک کردیں معاشرے کو اس غلاظت سے یہ مکرتے ہیں یہ اہل ریاست کیا جانیں ہمیں ہر دور کے تلوار و لشکر ہم سے آج بھی ہم سے ڈرتے ہیں قتل کرے ہمیشہ اہل قلم انہونے تاریخ میں جابر ہم ان کو لکھتے ہیں ہم اشعار لکھنے والے بھی لوگ ہم کلامی خود سے کرتے ہیں ان اشعاروں میں رنگ لئے ہم زندگی میں رنگ ہم ہی بھرتے ہیں تحریر : محسن علی

"دھیرے دھیرے "

دھیرے دھیرے کر کے سب نے مجھے نکالا ہے اپنی خواہشوں کے آگے سب نے مجھے مارڈالا ہے یوں تو بوجھ ہوں میں خود پر بھی یہ سچ ہے بھلا میں نے بھی کچھ اس طرح سے خود ہی اپنے وجود کو مارا ہے کسی سے بھلا کیونکر کریں محسن ہم بھی خود ہی تو پوری جفا سے ہم نے خود کو اس محبت کی ٹھوکروں میں ہی تو پالا ہے ...ہم ہی ہیں اپنی زندگی کی تباہی کے مجرم , مگر عشق کا بھی تو یہ انداز ہمارا نرالہ ہے محبت ہوگئی ہے ہم کو اب بھلا بتائیں کیا کیا .. پھر زندگی کو اب ہم نے ایک عذاب میں ڈالا ہے فیصلہ جو بھی ہواُس کا شکست زندگی سے ہم کو کیسے گروع جی نے ہم کو سنبھالا ہے سورج کی طرح چمکونگا میں بھی کہ چاروں طرف میرے اب اجالا ہے تحریر : محسن علی

"مصروف"

بہت مصروف ہو زندگی میں بہت مصروف ہو زندگی میں بہت مصروف ہو زندگی میں میرے وجود کا احساس نہیں کون ہوں کیا لگتا ہوں تم کو میں کیوں بتلاؤں بھلا تمھیں فقط ایک زندگی نہیں ہوں میں کئی صدیوں پر محیط ہوں میں گزرے زمانوں کی خاک ہوں میں میرے مرنے کو موت نہ سمجھنا تم پھر پلٹ کہ آؤنگا میں دیکھ نہ لو گے جب تک تم میرا عروج..زوال سے پھر کمال کو پلٹ آؤنگا میں مرتے نہیں عشق کرنے والے تم کو حاصل کر کے جاونگا میں کیوں خائف ہو بھلا میرے وجود سے تم تمھارا ہی لباس بن کر آؤنگا میں تحریر: محسن علی وجود کا احساس نہیں کون ہوں کیا لگتا ہوں تم کو میں کیوں بتلاؤں بھلا تمھیں فقط ایک زندگی نہیں ہوں میں صدیوں پر محیط ہوں میں گزرے زمانوں کی خاک ہوں میں میرے مرنے کو موت نہ سمجھنا تم پھر پلٹ کہ آؤنگا میں دیکھ نہ لو گے جب تک تم میرا عروج..زوال سے پھر کمال کو پلٹ آؤنگا میں مرتے نہیں عشق کرنے والے تم کو حاصل کر کے جاونگا میں کیوں خائف ہو بھلا میرے وجود سے تم تمھارا ہی لباس بن کر آؤنگا میں تحریر: محسن علی وجود کا احساس نہیں کون ہوں کیا لگتا ہوں تم کو بہت مصروف ہو زندگی میں میرے وجود کا احس

دہشتگردی یا مفادات:

                  پاکستان کے اندر حالیہ ہفتے میں دہشتگردی کے تین واقعے پے درے پے ہوئے اور دہشتگردی کی لہرنے  تیزی سے پھر سر اُٹھایا ہے جس میں کم سے کم دو سوقیمتی جانوں کا ضائع ہوئیں۔مگر سوچنے کی بات ہے ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم اور دفتر خارجہ اس معاملہ پر افغانستان سے دو ٹوک بات کا عندیہ دے رہے ہیں تودوسری طرف جناب یہ کیوں بھول رہے ہیں سرحد کی ذمہ داری شائد میری یا حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کے دفاعی ادارے کی ہوتی ہے جس طرح سے ملک کے اندرونی جرائم اور قتل و غارت کی ذمہ داری سویلین حکومت اور پولیس دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہوتا ہے بالکل ایسے ہی سرحد کی حفاظت کا کام آ پ کا ہے کہ بیرونی جارحیت یا بیرونی دہشتگردی کے روکنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔گزشتہ چند ماہ قبل جب شکریہ راحیل شریف کمانڈ سنبھالے ہوئے تھے تو اس وقت اس تیزی سے حملے دیکھنے کو نہیں ملے مگر حقیقت یہ ہے کہ اے پی ایس،پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہو یا وکلاء پر یہ تین کافی بڑے حملے ہوئے دیگر حملوں کے علاوہ جس میں تقریبا تین سو لوگ اپنی جانوں سے گئے مگر دوسری طرف راحیل شریف کے دور میں شوال کے علاقے کو کئی ب

" کہرام"

مجھ میں شائد خاموشی تو جنم نہ لے سکے ہاں ! میرا لاشہ شہر میں کہرام ضرور مچائیگا تحریر محسن علی

" محبوب "

کبھی کبھی محبوب کے آگے بکھرناچاہئے   محبوب کو منانے کے لئے سنورنا چاہئے                      تحریر محسن علی

شادی،بندھن یا گھٹن:

Image
شادی،بندھن یا گھٹن:                    شادی جیسے نام سے ہی معنی کچھ واضح ہوتے ہیں کہ خوشی کیونکہ ہم کہتے سنتے آئے ہیں شاد رہو آباد رہو۔تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں مگر کیا واقعی شادی کی رات کے بعد انسان اندر سے خوش ہوتا ہے سکون پاتا ہے؟اس کا جواب موجودہ زمانے یا گزشتہ سو سال پرنظر ڈالیں تو نہیں میں ملے گا وجہ کیا؟ جبکہ کہنے کو یہ رشتہ ارتقائی عمل سے ہوتا ہوامعاشرتی پھر مذہبی بیانیہ اس میں شامل ہوا۔مگر کیا ایسا سب کرنے کے بعد اس رشتے نے فلاح یا بہتری پائی یا پسپائی کی طرف گیا؟جب یہ رشتہ معاشرتی اور مذہبی روایات کے ساتھ آگے بڑھا وقت کے ساتھ  تو اس میں تبدیلیاں رونماء ہوتی رہیں مگر اس میں کامیاب زندگیوں کے حوالے گزشتہ صدیوں اور زمانوں میں شاد ونادر ہی کیو ں ملتے ہیں؟ جبکہ مذہب نے اسکو سند دے دی اور کہنے کو خدا کی جانب سے اس رشتے کو شریعت ومعاشرتی قانون کا سہارا مل گیا۔مگر غور کیا جائے تو کیا انبیاء اکرام کیا اولیاء،کیا گوتم بدھ اور بنی نوع کی تاریخ مذہبی نقطہ نظر سے آدم و حوا کا رشتہ کیا بہترین تھا؟ ذرا ساغور وفکر کریں جب کہ مذہب نے شادی کے بندھن میں مرد کو عورت کا لباس اور عورت کو