Posts

"بلا عنوان "

جب الفاظ نہ ہوں کہنے کو  جب کوئی جگہ نہ ہو ٹہر جانے کو بس سفر  میں تن تنہاہو جانے کو  کوئی سایہ بھی نہ ہو بیٹھ جانے کو  اور وحشتوں کو بڑھ جانے دو  پھر زندگی کسی شام ڈھل جانے کو  اورکوئی بھی نہ ہو گلے لگانے کو  پھر کیوں نہ جی چاہے مرجانے کو  تحریر : محسن علی

بم دھماکوں پر ایک نظم

بم دھماکوں پر ایک نظم لفظ نہیں پاس اب احساس بھی نہیں باتیں ہیں کہنے کو بہت ہزار مگر اب بات پھر بھی کچھ کہنے کوہے نہیں لاشیں،جنازے اور یہ دھماکے ہیں جی تو کرتا ہے پکڑلوں تم لوگ کے گریباں مگر کیا کروں،میں اہل قلم ہوں کوئی تشدد پسند تو تم سا نہیں تم حاکم، تم غاصب،تم اہل عقل کُل یہ معصوم جنازے،یہ سوال کچھ بھی نہیں تم اور اہل ِڈی ایچ اے رہے خوشحال یہ عوام کیڑے مکوڑے، اور کچھ بھی نہیں کراچی،لاہور،پشاور،کوئیٹہ،یا قبائل یہ سب فقط ہیں شہیدہونے کو مگر میرے یہ محافظ کے سالار یہ اہل زبان ہیں فقط،اور کچھ بھی نہیں جنازے میرے لوگ اٹھاتے ہیں روز تم کو ہو غور وفگر کا شوق تو یہ چند شرپسند تمھارے آگے پھر کچھ بھی نہیں کبھی ڈالر،کبھی ریال تو سی پیک مگر ان انسانوں کی جانیں تمھارے لئے کچھ بھی تو نہیں سوال اٹھاؤں گا تو مارا جاؤنگا میں تمھارے اگر عقیدے پر نہیں تو میں کچھ بھی تو نہیں آگ لگادوں میں الفاظ سے اگر مگر تم پر اثر کیا ہوگا بھلا کچھ بھی تو نہیں تحریر:محسن علی

محبت اور فلسفہ محبت ؟

محبت اور فلسفہ محبت ؟ محبت یوں تو کہنے کو فقط الفاظ ہیں مگر اس کے معنی کیا ہیں ؟ کیا یہ جذبہ وجود رکھتاہے ؟ کیا اس کو ہم ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ آج کا دور ثابت کرنے کا دور ہے عقلی دلیل سے ک،یا لوگ محبت میں مر کر اس کو ثابت کرسکے یا محبت فقط ایک خوبصور لفظ ہے اور کہیں وجود نہیں رکھتا. میں کہوں گا محبت کائنات کی بنیاد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں سب چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں، اس جُڑے رہنے کا نام محبت ہے جس کی وجہ سے کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اسی کی وجہ سے اس کے سب رنگ اونچائیاں گہرائیاں زمین کا ٹھہراؤ سب کے میل جول سے کائنات ہے . اگر اب اگر اس لفظ محبت کو انسانی جذبات کے سانچے میں رکھ کر جانچیں تو دیکھیں کہ جب ماں بچے کو گود میں لیتی ہےاپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے،اسی طرح دیگر لوگ اسے اپنی گود میں لے کر اپنا احساس دلاتے ہیں ،جبکہ اجنبی لمس پاتے ہی بچہ رونے لگتا ہے۔یعنی اپنائیت کا احساس محبت ہے . اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک جنس کا دوسری جنس کے احساس کو قبول کرنے کا نام محبت ہے . دیکھا جائے تو پھول کا ٹہنی کانٹوں و پتوں کے درمیان کھلنا یعنی سب کی محبت

احساس ...!

!احساس۔۔۔ احساس یہ لفظ جتنا گزشتہ دس سالوں میں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھا ہے اتنا احساس لوگوں میں جاگا نہیں ہے وجہ کیا ہے ایسا کیونکر ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سی بڑی بڑی باتوں کا احساس کرکے سمجھتے ہیں ہم حساس ہیں اور احساس کرنا جان گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان بڑی باتوں پر احساس دکھلادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے فلاحی اداروں میں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ان کام کرنے والوں میں احساس ہوتا ہے مگر ان ہی لوگوں کا برتاؤ اپنے ہی لوگوں سے بے حس طرز کا ہوتا ہے ۔یہی حال معاشرے کے تمام تر انسانوں کا ہے ایک طرف حکومت کو گالیاں دے کر لوگ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خود اپنے رویوں اور لفظوں اور لہجوں پر غور نہیں کرتے کیا آپ کسی کو گالی دے کر احساس دلاسکتے ہیں ؟ یہ آپ اُس کی تذلیل کریں گے یا اس کو کچھ سمجھائیں گے ؟ کیا غصے کی حالت میں انسان سمجھ سکتا ہے ؟کیا ضروری ہے فقط دوسروں کو احساس دلایا جائے اور اپنا احساس نہیں دیکھا جائے جس طرح دوسروں سے مخاطب ہوتے کیا آپ سے اس طرح کوئی مخاطب ہو تو آپ کو اچھا لگے گا ؟ دوستی میں یہ سب چلتا ہے کیوں دوست بے حس ہوتے ہیں؟ گھر می

"روز"

"روز" میں ٹوٹا ہوا آسمان سے آگرا ہوں  نہ جانے میں کس جُرم کی سزا ہوں  ہوں تو سلامت مکمل کہنے کو  پھر بھی اپنے آپ میں تنہا ہوں  یہ تنہائیاں اور وحشتیں ہیں ایسے  کہ خود میں سمٹ کر ٹوٹ گیا ہوں  ایک پیاس ہے اس روح کو عجب سی  تیرے خیالوں سے روح معطر کرہا ہوں  نہ جانے کیونکر آئی ہے تو زندگی میں  تیری حسرت لئے میں روز مررہا ہوں  یوں تو ایک میں ہی گمراہ نہیں ہوں  پھر بھی انجان آس لئے دعا کرہا ہوں  تجھ کو مجھ سے نہیں کوئی محبت  روز کیوں تیرے ہی خواب دیکھ رہا ہوں  یہ محبت یہ عشق یہ کوئی پاگل پن  نہیں مجھے یہ سب کچھ معلوم مگر  تیرےواسطے میں اپنی ذات سے لڑ رہا ہوں  تم نہ ملی تو نہ جانے جیوں گا بھی کیسے  میں یہ سوچ کر روز پھر مررہا ہوں تحریر:محسن علی

بھابی و دیور

بھابی و دیور  اگر اس رشتے کی بات کی جائے تو یہ بہت پیارا تو کبھی خوفناک دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کے گرد نظر ڈالیں اور اس میں شک کی گنجائش زیادہ اور یقین کم ہوتا ہے دو بھائیوں کے درمیان اور مائیں بھی جو بیٹا دیور ہوتا ہے اسکو بار بار محتاط ہونے کی تنبیہ کرتی ہیں مگر میں آپ کو بتانا چاہونگا ۔اپنی زندگی کے حوالے سے، آپ یقین کریں نا کریں ۔دو ہزار پانچ میں میں اس فلیٹ میں شفٹ ہوا جس میں آج تک رہ رہا ہوں۔ یہاں فلیٹ کے لڑکے سمجھ نہیں آئے تو لہٰذاکیفے پر ایک لڑکے اصغر سے دوستی ہوگئی اور اتنی گہری ہوگئی کہ اسکے گھر آنا جانا کھانا پینا کبھی سوجانے تک۔ وہ بھی سامنے فلیٹ میں ہی رہتا روڈ پار مگر خاص بات یہ تھی کہ میری اسکے سب گھروالوں سے بہت اچھی بات چیت تھی ۔بھابی، بھابی کم بالکل ماں کی طرح۔ کسی وقت بھی بے دھڑک چلے جاو دروازہ کھلا ہو یا بند یوہی اندر گھس جاو اتنی بے تکلفی تھی۔ پھر یوں ہوا ایک بار والد صاحب نے حسب روایت گھر سے کسی بات پر نکال دیا ۔رات تین بجے تو انکے گھر گیا اصغر نہیں تھا ۔بھابی نے دروازہ کھولتے ہی پوچھابیٹا کہاں سے آرہے ہو، تھکے ہوئے ہو کھانا لاوں آو سوجاو آرام س

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی یہ کہانی دو ایسے اچھوتے دوستوں کی ہے جو کبھی ملے نہیں مگر ان میں جتنا اختلاف تھا اتنا اتفاق بھی ،وہ دونوں واقعی میں دو جسم ایک جان جیسے دوست تھے۔ ان کی دوستی ذہنی طور پر اتنی مضبوط تھی کہ حیرانی ہو ۔مگر ان کے درمیان رابطہ کا ذریعہ فقط سوشل میڈیا یا کمیونیکشن رہا تھا مگر دونوں کی زندگی کے تجربات میں ایک سی اذیتیں تھیں ۔ ایک کا نام عتیقہ اور ایک دوسرے کا نام مہتشم ۔ تقریبا ًوہ دونوں دیکھنے میں عام انسانوں کی مانند مگر عتیقہ بے حد مضبوط اعصاب کی اور دوسرا بات بے بات پر رودینے والا جذباتی طبیعت کا مگر وہ بس چند دوستوں تک ہی محدود سوشل میڈیا پر ہوکر رہ گیا تھا۔ اس نے ارادہ بنالیا تھا کہ اپنی محبت کو اب کہ نا حاصل کرسکا ۔ وہ ملے تو آگے زندگی اور نہ ملے تو موت طے کرچکا تھا مگر اس کے سب دوست سوائے اس کی ایک دوست عقیقہ کے سب اس فعل کو برا جانتے تھے مگر وہ جان گیا تھا ۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ ذہن و روح کی صدیوں کی پیاس وہ بجھا سکے گا اور اگر نہ پاسکا تو بھٹکتا رہے گا ۔عمر بھر اس کا یقین پختہ ہوگیا تھا ۔ آخر وہ بہت کوششوں کے بعد اُس لڑکی ج

عورت کیا پہنے ؟

عورت کیا پہنے کیا نہیں یہ ہ بات ہمہشہ سے معاشرہ مذھب اور روایتں طے کرتے آئے ہیں . آج بھی ایک ماڈرن عورت سعودی جائے تو اسے ابایہ اور اسکارف پہننا پڑتا ہے . . کچھ مغربی ممالک میں اس کے اسکارف پہ پابندی ہے طالبان کی حکومت آئے تو ان کو برقع پہنایہ جاتا ہے پہر سیکیولر حکومت میں آئیں تو ان کا برقع اتروادیا جاتا ہے . . پاکستان میں ہے کسی چھوٹے شہر سے تعلق رکھتی تو شلوار قمیس پہنے . باپ یا بھائی ملا ہے تو حجاب پہنوا دیا جاتا ہے شوہر ماڈرن خیال کا ہے تو حجاب اتروانے پہ بضد ہے جب کہ یہ مرد باہر اگر دھوتی میں بھی چلے جائے تو کسی کا ایمان خراب نہیں ہوتا نہیں کسی کے تھذیب کو ٹھیس نہیں پڑتی ہے .یہی مرد جہان چاہیں جو لباس پہنیں انہیں کوئی کچہ نہیں کہ سکتا . .ساری دنیا میں اس کا لباس یونیورسل ہے . پھر بہت سے لوگ عورتوں کی ڈریسنگ پہ کمینٹس کرتے نظر آئین گے . کوئی تو ان کے میک اپ کرنے پہ اعتراض کرتے ہیں تو کوئی ان کی میک اپ نہ کرنے پہ سیاست میں ہے تو دوپٹہ پہنے ٹی وی پہ تو دوپٹہ اتار دے . آج کل عورتون کے برینڈ ڈ کپڑے پہننے پہ اعتراض ہو رہا ہے آج تک ہمیشہ مردوں کو ہی راڈو گھڑی نائکی کے شوز پہنت

" چائے " 3

Image
" چائے " یوں نہیں ہو سکتا , تم کاندهے پہ سر رکهو، کچه کہ کے چپ ہو جاو، میں تم کو دیکهوں , تم کہیں کهو جاو،  چائے کی پیالی لبوں سے لگا کے, تم مجه میں دهواں ہو جاو . تحریر:محسن علی

"چائے..". .. 2

Image
"چائے..". جب بهی میں پیتا ہوں ، اس کے دهویں سے، چہرہ اس کا سامنے آ جاتا ہے، جب تک چائے کی آ خری چسکی نہ لے لوں ، اس کا چہرہ مسکراتا میرے سنگ چائے پیتا، مجهے حوصلہ دیتا، کہ میں تمہاری ہوں، تمہیں نہ کرنے کا مطلب تمہیں ناکام کرنا ہے، دیکهو میں اپنی پسند پہ زندگی نہیں گزار رہی، تو تم بهی میرے جیسے بننے کی کوشش کرو، دیکهو تم خود کو چهو کے مجهے چهوتے ہو، ایسے ہی میں بهی، خیالوں کے گمان میں یہ گناہ کرتی ہوں، مگر محبت نہیں کرتی، اور چائے کی آخری چسکی لے لیتی ہوں. تحریر:محسن علی

"چائے "....1

Image
"چائے ".... دهیمے دهیمے دهواں اڑاتی، کیٹل سے، پانی اور پتی کو ملاتی جیسے، روح اور جسم،  اس میں سفید دوده جیسی خوشیاں، اور پهر چینی ، جیسے کچه رومانوی پل ، جب چمچہ چلے اس میں تو، جیسے زندگی کے طوفان پر کرتی .....چائے.  تحریر:محسن علی

پاکستان سے غائبستان کا سفر

                            پاکستان میں غائب ہونے کا سفر آغاز سے ہی شروع کردیا تھا جسکی پہلے کڑی قائد اعظم پھر لیاقت علی خان پھر رفتہ رفتہ سول حکومتوں کو پیچھے سے اٹھک بیٹھک کرواتے رہنا اور پھر آخرکار ایوب خان نے ایک دہائی تک سول حکومت غائب کردیجس کے درمیان میں پینسٹھ کی جنگ جو کہ ہم نے   ”جیتی“  کی تاریخ غائب کردی گئی پھر اسکے بعد بنگالیوں کوغائب کردیا گیا نقشے سے،پھر بھٹو صاحب عوامی رائے سے ملک پر حکمران بننے اور پھر مذہبی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر دوسری ترمیم کروادی جس سے پھر احمدی حضرات غائب ہونا شروع ہوگئے  ”کبھی جان سے گئے کبھی ملک سے بھاگے“۔اسکے بعد ہم نے یہ سفر کچھ تیزی سے طے کیا اور ہم نے بلوچستان کے بارے میں ملکی سطح پر خبریں غائب کرنی شروع کردیں،مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے دور میں پی پی کے لوگ تیزی سے غائب ہوتے گئے۔اس سلسلے کو بانوے سے ننانوے تک دو جمہوری دور میں بہت تیزی ملی غائب ہونے کی روایت کو مگر مجال ہے کہ قومی سطح پر کسی نے کان دھرے ہوں اس غائب ہونے کے بار ے میں کیونکہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی لے کر مسجد یں بیٹھے رہے۔ پھر یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں دیکھنے ک

"ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے"

ریاست دیکھیں ماں کی جیسی ہے اس لئے ہم سب کے کاکڑ صاحب نے خالہ کا کردار ادا کرتے ہوئے چھوٹے قاتل لدھیانوی کا انٹرویو چھاپہ تو ریاست کو بھی اپنا بیٹا بڑا قاتل احسان اللہ احسان فخر پاکستان "قاتل پاکستانی" کو فی الفور اسپیس دینی پڑی ۔۔شکریہ راحیل شریف کا بھجن پڑھنے والے شکریہ پاک فوج کے ترانے نہیں بجارہے نہ کسی غیرت بریگیڈ کی غیرت جاگ رہی نہ استعفی دو محافظ قاتل باجوہ کے نعرے نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کی عزت کو دھچکا لگا ایک چھینک کی آواز نہیں سنائی دی گئی میڈیا پر جبکہ سپری م کورٹ سوموٹو بھی نہیں لیا کہ کس قانون کے تحت پاکستانی عوام کے قاتل کو قوم کا بیٹا دیا گیا ہے کسی نے پٹیشن بھی درج نہیں کی ، جی کیا اسلامی یا لبرل پاکستاں میں ہزاروں قتل کرنے والے کو کس اصول کے تحت معاف کیا گیا ہے کیا مقتولین کے خاندان والوں نے معاف کردیا ۔۔نہیں مگر ایک سوئی نہیں گریگی ۔۔ مردہ باد مردہ باد باجوہ مردہ باد، نوازشریف مردہ باد ،زرداری مردہ باد، اسفند یار ولی مردہ باد، عمران خان مردہ باد۔۔  مردہ باد مردہ باد پاکستان کے قاتل اصول مردہ باد، قاتلوں کو پناہ دینے والے مردہ باد ، انکو سزا کے

"ہم نیلسن مںڈیلا"

"ہم نیلسن مںڈیلا"  پاکستان کی ریاست و قوم کو شائد ریاستی طور پر نیلسن منڈیلا بننے کی انگڑائی لی ہے یوں تو یہ بات میں نے گزشتہ سال اپنے ایک کالم میں کی تھی کہ سیاسی رہنماوں کو عام معفافی تلافی دے دییں اور تمام تر فرقہ پرستوں کو بھی ، اس کے بعد نیا سوشل کںٹریکٹ کرکے سب کو معاف کردیں اور پھر مسلکی کتابوں کا مسودہ نئے سرے سے تشکیل کریں جس میں رواداری کا پہلو نمایا ہو ، مگر اس سوشل کنٹریکٹ کے لئے قوم کی مجموعی سوچ سے رائے لی جائے جن کے رفقاء و عزیز شہید ہوئے ہیں انکی نوکریوں کا مستقل بندوبست کرے سات جو معذور ہوئے ان کے لئے بھی پہلے ریاست کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات کرے۔۔ یہ سب کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کرتی کہ ریاست ایسا کرنے جارہے ہے کیا عوام الناس اس سے متفق ہے یا نہیں اور پھر عوام کی آراء کے مطابق نیا سوشل کنٹریکٹ کرکے فوج کو بلوچستان اور کراچی سے وآپس بلا کر سیاسی قائدین کو ملک میں وآپس بلا کر اور دہشتگردوں کو آخری نوٹس دے کر تسفیہ کیا جاتا ، اگر قوم کی اجتماعی سوچ دہشتگردوں اور قاتلوں کو پھانسی کے حق میں ہوتی تو لازمی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہئے تھا مگر کیا کر

دھتکارے ہوئے لوگ ( سندھو لغاری)

Image
            15 مارچ 2017  |  سوجاگ سے لی گئی تحریر        تحریر کرنے والی کی اجازت سے         سندھو لغاری سندھ کے شہر حیدرآباد کی گڑھی نواز کالونی کی تنگ، بدبو دار اور خستہ حال گلیوں سے گزرنے کے بعد خواجہ سراؤں کے گھر نظر آتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا اپنے گھروں میں اکیلے یا پھر کسی دوسرے خواجہ سرا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ناچ گانا کرکے پیٹ پالتے ہیں اور کچھ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دس بارہ جماعت پڑھے ہوئے ہیں مگر کہیں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے یہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹی عمر کے ناپختہ کار خواجہ سرا اپنے گُرو کے مقلد ہوتے ہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ گُرو ان کی نہ صرف رہنمائی کرتے بلکہ حصول معاش میں بھی مدد کرتے ہیں۔ یوں ان خواجہ سراؤں کا زیادہ تر انحصار اپنے گرو پر ہوتا ہے۔ آخر انہیں اپنا گھر کیوں چھوڑنا پڑتا ہے؟ بیشتر خواجہ سراؤں بتایا کہ ماں باپ کے علاوہ دیگر اہل خانہ والوں کا برتاؤ اُن کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ کچھ نے تو کہا کہ باپ کا رویہ بھی ان سے نامناسب تھا۔ خواجہ سرا 'بندیا' اب بھی اپنے خاندان کے س

"ورق ورق"

ہم...ورق ورق پڑھتے ہیں ہم زندگی عرق لکھتے ہیں ہم ہر لفظ لکھنے سے پہلے سو بار جیتے مرتے ہیں ہم افسانوں میں ملتے ہیں گزرے زمانوں میں ملتے ہیں کبھی کبھی اہل قلم لوگوں کو قلم کی سیاہی میں ملتے ہیں تاریخ و تہذیب اور اخلاق ہم ہر دور کی تحریروں میں لکھتے ہیں ہم خاک نشین اکثر مرنے کے بعد ہی زندہ ملتے ہیں ریاست ہو یا اہل سیاست سب ہر دور میں ہم سے ڈرتے ہیں جو چاک کردیں معاشرے کو اس غلاظت سے یہ مکرتے ہیں یہ اہل ریاست کیا جانیں ہمیں ہر دور کے تلوار و لشکر ہم سے آج بھی ہم سے ڈرتے ہیں قتل کرے ہمیشہ اہل قلم انہونے تاریخ میں جابر ہم ان کو لکھتے ہیں ہم اشعار لکھنے والے بھی لوگ ہم کلامی خود سے کرتے ہیں ان اشعاروں میں رنگ لئے ہم زندگی میں رنگ ہم ہی بھرتے ہیں تحریر : محسن علی

"دھیرے دھیرے "

دھیرے دھیرے کر کے سب نے مجھے نکالا ہے اپنی خواہشوں کے آگے سب نے مجھے مارڈالا ہے یوں تو بوجھ ہوں میں خود پر بھی یہ سچ ہے بھلا میں نے بھی کچھ اس طرح سے خود ہی اپنے وجود کو مارا ہے کسی سے بھلا کیونکر کریں محسن ہم بھی خود ہی تو پوری جفا سے ہم نے خود کو اس محبت کی ٹھوکروں میں ہی تو پالا ہے ...ہم ہی ہیں اپنی زندگی کی تباہی کے مجرم , مگر عشق کا بھی تو یہ انداز ہمارا نرالہ ہے محبت ہوگئی ہے ہم کو اب بھلا بتائیں کیا کیا .. پھر زندگی کو اب ہم نے ایک عذاب میں ڈالا ہے فیصلہ جو بھی ہواُس کا شکست زندگی سے ہم کو کیسے گروع جی نے ہم کو سنبھالا ہے سورج کی طرح چمکونگا میں بھی کہ چاروں طرف میرے اب اجالا ہے تحریر : محسن علی