کراچی لٹریچر فیسٹیول کا احوال "تین روزہ "



تین روزہ حال احوال
کراچی لٹریچر فیسٹیول "تین روز" 
مُجھے اس فیسٹیول کے آنے کا انتظار رہتا ہے ہمیشہ اب کی بار بھی رہا مگر بس کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر دل نہیں مانا لہذا ارادہ تو کرلیا تھا نہیں جاونگا مگر جمعہ کو آفس سے نکلتے ہوئے اُسکو سوچتے سوچتے بس کو آتا دیکھتے اُس طرف جاتی اُس میں چڑھ گیا ۔کینٹ اسٹیشن پہنچا ہی تھا دل کیا وآپس گھر پلٹ جاوں مگر راستے میں ہی ایک نظم الہام ہوگئی اور پھر سگنل بھی کراس ہوگیا تو سوچا اب چلے جانا چاہئیے خیر سے وہاں پہنچے تو گارڈن میں کُچھ دیر بیٹھ کر بروشر لئے دیکھا تو Universities or Nurseries of Terrorism سیشن کام کا لگا کیونکہ باقی میں رش تھا دو میں اور دیگر کوئی اچھا نہیں لگا وہاں بات تو ہوئی مگر بات برداشت کی ہوئی جب کہ ہمیں معاشرے میں ایک دوسرے کو قبول کرنا سیکھانا چاہئے کافی اچھی گفتگو رہی جس میں ویلنٹائن ڈے کو مذہبی ڈنڈے کیوجہ سے بند کروایا گیا،پھر مشعال ،عاصمہ ، نقیب کے بارے میں گفتگو کی گئی اور والدین و استاتذہ کی ساتھ کہ دُنیا بھر کیا بات ہورہی ہے اور وہ کسطرز پر کام کرہے ساتھ امریکی رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ امریکہ کہ اندر دو چار لوگ لگے ہیں اسلامی شدت پسندی کو ہوا دینے میں اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بات ہوئی کہ اداروں کے مالکان یا اداروں کے سربراہان کی ذمہ داری ہے وہ رواداری پیدا کریں ۔
اس سیشن کے بعد کُچھ دوستوں کے علیک سلیک ہوئی اور پھر گھر کو وآپسی 
مگر مسلسل ایک احساس جو رہا وہ اُسکے نہ ہونے کا 
اب کہ سال یہ بدلاو تھا کہ کسی دوست کے آسرے میں نہیں رہا کسی سے باقاعدہ پلان نہیں کیا ۔۔ایک بات یاد آئی ڈاکٹر فرحانہ نے کہا تھا پہلے لٹریچر فیسٹیول میں تنہا محفلوں میں جایا کرو میں بھی ایسے ہی جاتی ہوں اُس کی یہ بات عقل میں نہیں آئی تھی مگر دو سال کے قلیل عرصے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہاں وہ گزشتہ سال تو ملی تھی مُجھے اسی لٹریچر فیسٹیول پر دو منٹ اس سال نہیں ملی ۔۔بحرحال خیر وہاں سے وآپسی نکلے تو بس آنے میں بڑا وقت لیا اور کوئی رات ساڑھے بارہ بجے گھر داخل ہوئے ۔
کراچی لٹریچل فیسٹیول پہلے دن ٹھنڈا تھا تو دوسرے دن کافی زیادہ رش تھا آفس میں گروع کے میسیج آنے کا انتظارکرتے کرتے سوچا خود ہی چلاجاوں کیا معلوم وہ پہنچ گئیں ہوں خیر وہاں پہنچتے پہنچتے راستے میں پھر دو نظمیں آگئیں انکو وہی آنلائن رقم کیا اور پہنچ گئے داخل ہوتے ہی شاہد شاہ بلاگر مختصر کہانی لکھنے والے و حامی شاعر دوست سے ملاقات ہوگئی چائے لی اور گارڈن میں پہلے عشرت حُسین اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر انکی نئی کتاب گورن۔ دی ان گورننگ پر بات ہوئی ۔۔جس میں انہونے سٹیٹکس کے ساتھ ماضی و حال کا جائزہ لے کر ساتھ پچیس تجاویز بھی پیش کی ہیں تعجب کی بات یہ کہ کتاب کی تقریب رونمائی تھی فقط پھر بھی جب میں کتاب لینے پہنچا تو اسٹاک ختم ہوچُکا تھا جو کہ بے حد حیران کُن تھا عموما ایسا ہوتا نہیں جب کہ کہا جاتا ہے کہ اب پڑھنے والے لوگ کہاں ؟ مگر اکنامکس جیسے خُشک سبجیکٹ کی کتاب کا ختم ہوجانا ایک کامیابی ہے جو کہ امینہ سید کی مسلسل نو سالہ محنت کا نتیجہ ہے ساتھ یو بی ایل، ٹپال ،ڈان۔ نیوز ، اور پیپسی کا ہماء بقائی یوسف صلاحدین اور سکندر صاحب کے ساتھ سیشن اٹینڈ کیا میڈیا و بریکنگ نیوز جس میں میڈیا کے اندر خود ساختہ تجزیہ نگاروں اور الزام لگانے والوں پر بات ہوئی جن میں شاہد مسعود ،عامر لیاقت ، ڈاکٹر دانش اور دیگر کی بات ہوئی جبکہ دوسری طرف یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ڈان نیوز کا ذرا ہٹ کے اتنی ریٹنگ اتنے بے ہنگم شور میں کیسے لے رہاہے ، انفارمیشن کو ہم خبر دے رہے یا اوپنین بنارہے یا پھر کوئی ایجنڈا بنارہے یہ دیکھنا ہوگا ، ساتھ ہم تماش بین کی طرح کیوں یہ شوز دیکھتے ہم نے مُلکی معاملات کو انٹرٹینمینٹ بنا کر رکھ دیا ہے ، وہاں سے فارغ ہوکر کُچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی پھر مُشاعرے کی طرف روانہ ہوئے جہاں افتخار عارف ، امجد افضجل ، کشورناہید،تنویر امجد ، فاطمہ حسن ، اسامہ میر ، عرفان ستاراور دیگر موجود تھے ۔ یوں تو یہ مُشاعرہ انعام صاحب میزبانی کرہے تھے مگر افسوس وہ صاحب کو صاحبہ اور صاحبہ کو صاحب کہتے گئے اور کسی نے توجہ نہ دی سارا مجموعہ ہنستا رہا ، جو کہ اُردو لکھنے و بولنے والوں کو تو درست بولنا چاہئے تھا وہاں ، بحر حال مُشاعرہ کیونکہ بڑے شعراء اکرام تھے تو اچھا رہا مگر سب سے جاندار کشور ناہید صاحبہ کاخط اور نثری نظم جو کہ زینب پر خط ، اور مشال و نقیب پر نثری نظم بھاری رہی کچھ دیر قوالی سے لطف اندوز ہوکر چائے لئے گھر کی راہ لی ۔
گھر وآپسی پر مہدی سے ہوٹل پر ملاقات ہوئی اُسکو بتایا اُس نے کہا کل چلتے ہیں ،ارادہ نہ تھا مگر پھر رات ڈھنگ سے سولیا کسی طرح صبح بارہ بجے آنکھ کُھلی گھر کے اور بہن کے کام کرکے کپڑے بھگوگے نہا کر نکلے تو گھڑی چار بجارہی تھی مہدی بھائی کو کال کی تو کہا یار وقت لگے گا تھوڑا کیونکہ تیار ہوچکا تھا تو لہذا عفان کو کال کی پوچھا کہا ہو وہ مصالحہ ایکسپو میں تھا ، اُس سے کہا میں آرہا ہوں وہاں پہنچا پونے گھںٹے وہاں عفان، زین ،ارحمہ، بسمہ کے ساتھ انتظار کرکے مہدی کے ساتھ بیچ لگژری پہنچا تو سیشن سب ختم پر تھے تو لہذا کتابوں کی طرف رُخ کیا تو پھر گورن دی ان گورننگ کا پوچھا کہا گیا اسٹاک ختم ہوگیا یعنی حیرت کی انتہا دو دن لگاتار۔ ۔۔کیا یہ قوم واقعی پڑھنے لگی ہے ؟ خوشی بھی و افسوس کہ نہیں مل سکی ، پھر میرری اعوان سے مُلاقات ہوئی تو ساتھ شبیر نازش "آنکھوں میں ٹہرے لوگ" ان سے ملاقات ہوگئی ، پھر شاہد شاہ سے ہوئی پھر حامی جو ساتھ تھے اُن سے بھی معلوم ہوا ہماری سہیلی آمنہ بھی ہیں اُن سے ملاقات ہوئی تو بمپر لائبہ زینب بھی وہاں موجود تھیں جو زریں اشرف کی صاحبزادی اور ایک زبردست گھرکی لڑکی ہیں۔اُن سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ چلو زریں جی کہ ایک پرچھائی تو دیکھ لی ، خیر آمنہ کی آنکھوں میں شکایت تھی جسکا اظہار برملا کیا مگر بات رہ گئی پھر پلٹے تو حسن ملک سے زاہد حسین سے مُلاقات ہوگئی کچھ دیر قوالی سُنی پھر زریں جی کہ کہنے پر لائبہ و شاہد کے ساتھ تصویر لی ساتھ ہی عبدالرحمن بھائی و نوشاد کے ساتھ تصویریں محفوظ کیں اور پھر گھر کی راہ لی ایک نظم لکھتے ہوئے ۔
اگر تین دن کی بات کی جائے تو کراچی لٹریچر فیسٹیول میں پہلے جیسا مزہ نہیں تھا کیونکہ بھارت کو ویزے کا مسلہ ساتھ بھارتی ریاست کی اجازت کا مسلہ اور باہر ممالک کے لوگ نہ آسکے جیسے کئی چھوٹے ممالک کےلوگ بھی گزشتہ برسوں میں آڈینس میں تھے اچھی تعداد میں مزید یہ اسپانسرشپ کم رہیں ، مینیجمنٹ پہلے کی طرح جاندار نہ تھی اور کتابیں بھی سلیکٹیو تھیں بڑے انسٹال نہیں تھے ۔۔مگر کتابوں، ادیبوں اور فنکاروں کو ایک ساتھ ہونا خوش اسلوبی سے طے ہوجانا ایک بہترین اقدام ہے اُمید ہے اگلے سال دس سالہ ہوگاتو وہ شاندار ہوگا ۔ 
محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"