تُم کہتے ہو میں مر کیوں نہیں جاتا ؟



تُم کہتے ہو میں مر کیوں نہیں جاتا ؟ 
میں تو روز مرتا ہوں ۔۔۔
تماشہ روز لگتا ہے 
میرے جذبات کو پاگل پن کہا جاتا ہے 
میں تو روز مرتا ہوں 
تُم کو نہیں دکھتا 
تُمھاری خاموشی یہ مُجھ پر 
مُسلسل قبر کی مٹی کی مانند 
مُجھ پر سارے وقت گرتی ہے 
میں روز مرتا ہوں 
اذیت میں سانس لیتا ہوں 
تُم کو کیوں نہیں دکھتا 
ہاں میرے الفاظ ہیں بہت 
مُجھے روز تھکاتے ہیں 
قلم سے خون تھوکواتے ہیں 
تُم کو کیوں نہیں دکھتا ؟ 
میں روز مرتا ہوں ۔۔۔
تُجھے پانے کی چاہ میں 
میں روز جی اُٹھتا ہوں 
اور 
پھر روز مرتا ہوں 
چند سانسیں ہیں 
جو میرے جسم میں قید 
میں ان سے روز لڑتا ہوں 
تُم کیوں نہیں دکھتا ؟ 
میں تو روز مرتا ہوں

مُحسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Gureza

کہانی قسط نمبرچار

"Write Your own"