Posts

Showing posts from 2017

ّّّؓؓؓآرمی چیف صاحب سے چند سوالات۔۔۔

Image
سرکارآپ نے بتایا 161مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی تو 56کو ہی اب تک کیوں دی گئی۔۔ باقی دہشتگردوں کو بھی سزا کے بعد تیزی سے سزا دی جاسکتی تھی یا مدت ختم ہونے کا انتظارہے؟ سرکار 28مارچ سے اب تک 105دن سے زائد ہوتے ہیں روز ایک کو بھی پھانسی دیتے تو سب کو سزائے موت دے چکے ہوتے سمجھنے سے قاصر ہوں میں۔۔ سر کار 160میں سے 33پر فیصلہ ہوا تو پھر فوجی عدالتیں بھی طویل ہونے لگیں کسی دور میں Kangroo Courtsکی طرح دوڑ لگاتی تھیں سترہ ایجینساں مجرم پکڑے جانے کے بعد اگر ثبوت نہ لاسکیں تو کیا سمجھوں سرکار؟ سرکار آپ نے بتایا خیبر و فاٹا میں ملا کر 1249کومبنگ اور انٹیلی جینس بیس آپریشن کئے مجھے یقین ہے آپ لوگوں نے کم از کم 622لوگ گرفتار کئے ہونگیں تو کیا ان کے مقدمات بھی قائم کئے کہیں پیش کیا انہیں یا ان آپریشن سے کیا حاصل ہوا اب تک؟ سرکار پنجاب میں 13011آپریشن میں کم از کم 605لوگ آپ نے پکڑیں ہونگیں کیا سب دہشتگرد تھے یا دہشتگردوں نے جبری ان کو استعمال کیا  یا پنجاب کے آپریشن اور خیبروفاٹا کے آپریشنز سے کیا نئی بات معلوم ہوئی اداروں کو کن نئی تنظیموں کے نام سامنے آئے؟ بلوچستان میں 1410آپریشن

#FindRaza

Image

کہانی قسط نمبر دس

کہانی قسط نمبر دس "سارہ کے گزشتہ بوئائے فرینڈ کی انتری عاطف کے بڑے بال اسمارٹ سا چشمہ لگا ہوا ۔۔۔ لمبے قد کا ، گرے ٹی شرٹ اور جینز میں اوپر کورٹ بلیک سردیوں کے دن " سارہ ایک فلیٹ میں گُھستی ہے چابی سے دروازہ کھول کر اور پرس سے فون نکال کر کال کرتی ہے سارہ خوش بھی ہوتی ہے چہرے سے مگر کچھ اکیلا پن بھی ہوتا ہے کیونکہ اُسکا جو ایک بوائے فرینڈ ہوتا ہے اُس سے وہ ملنے آتی ہے جو ایک ڈیڑھ سال میں اُسکو اُسکی بچی دے دیگا اور دونوں میں ہمیشہ کے لئے علیحدگی ہوجائیگی صرف دوست رہ جائینگے ۔ سارہ اکیلی بیٹھی ہے وہ سوچتی ہے سوال اٹھتا ہے اُسکے اندر سے سارہ کیا تم عاطف کو واقعی چھوڑ دوگی سارہ با آواز کہتی ہے خود سے کہتی ہے ہاں میں فیصلہ کرچُکی سارہ تو اتنآ قریب کیوں گئیں تھیں اُسکے سارہ با آواز کہتی ہے میں نویں میں تھیں مجھے زندگی کا نہیں معلوم تھا اور انسان کی جنسی ضرورت بھی ہوتی ہے شائد جنسی ضرورت کو میں اور وہ محبت سمجھ بیٹھے تھے تو زارا پیدا ہوگئی ۔ سارہ کیا تم آج واقعی آخری بار مل رہی ہو کیا تم پھر ٹوٹ کر نہیں بکھروگی آج تمھارے جذبات و احساسات ایک بے چینی سے کیوں ہے تم میں ؟ سارہ

کہانی قسط نمبر نو

قسط نمبر نو سارہ گھر پر بیٹھی کمرے میں ٹیبل پر اپنے ، اسکی بہن شائستہ گھر آئی ہوئی رکنے کے لئے ساتھ بیٹھی شاءستہ ٹی وی دیکھ رہی ہوتی ٹی بند کرکے وہ سارہ سے مخاطب ہوتی ہے ۔ شائستہ : سارہ یار ایک بات سوچ رہی تھی میں سارہ : شائستہ تم اور سوچتی ہو اس کا مجھے کبھی گمان بھی نہیں ہوئے شائستہ : میں مذاق نہیں کرہے یار ۔۔۔۔ سارہ: بچپن سے آج تک کبھی تم نے کوئی بات کہی نہیں اس طرح سے کہ تم کچھ سوچ رہی ہو اسلئے میں نے کہا شائستہ : بات سنو گی یا کام میں مصروف ہو تو ٹال رہیں سارہ : ارے یار میری جان کہو میں مصروف ہوں مگر تم سے بڑھ کر نہیں تم کہو کیا سوچ رہی تھیں شائستہ : میں سوچ رہی تھی آپ منگنی یا شادی وغیرہ کرلیں سارہ : شائستہ تم جانتی ہو میں کسی دوسرے کی رائے سے کبھی کچھ نہیں کیا جب تک میرا دل نہیں ہوا تم سب لوگ مجھ سے یہ بات کہنا چھوڑدوگے میں خود کچھ کرلونگی ۔ شائستہ :سارہ تم تو برا ہی مان گئیں یار ۔۔ سارہ: دیکھو یار میں پریکٹیکل قسم کی لڑکی ہوں شروع سے اسلئے تمھاری شادی کو سال ہونے آیا میں نے تم سے نہیں کہا یار بچہ کب آرہا ہے ہنی مون پر کیا کیا؟ کیونکہ میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں جاتی اسلئے

کہانی قسط نمبر آٹھ

آٹھویں قسط سارہ : آفس میں کام اپنی ٹیم کو دے کر ، جنید کو ایکسٹینشن کرتی ہے کچھ بات کرنی ہے فری ہو تو آوں ۔ جنید: دوسری طرف ہاں آجاو کام آج کم ہے میرے پاس کچھ سارہ: کمرے میں داخل ہوتی ہے جنید مجھے کچھ دنوں کی چھٹیاں چاہئے جنید: کیا شادی کے لئے یا کس وجہ سے ایپلیکشن دے دو میں اپروو کردونگا سارہ: ہاں بس دس بارہ دن کی چاہئے جنید : ایسا کرو آج تو منگل ہے اگلے منگل سے لے لو ۔ سارہ: کچھ سوچتے ہوئے نہیں مجھے اس مہینے نہیں اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی چاہئے ۔ جنید: کلینڈر پر نظر ڈالتے ہوئے اچھا پر سنو پہلے پیر آجانا اگلا مہینہ پیر سے شروع ہے ۔ سارہ: اچھا چلو ٹھیک ہے ۔ جنید سارہ کے جانے کے بعد توقیر و بابر کو بلاتا ہے کمرے میں اور ساتھ لبنی بھی آجاتی ہے جبکہ سارہ ۔۔آفس سے باہر نکل جاتی ہے ۔ جنید : یار دیکھو سارہ اگلے ماہ چھٹیوں پر جائیگی تو ہم کو سب کچھ دیکھنا ہوگا تم سب لوگ اس سے تھوڑا کام لے لو کیونکہ اس کے پاس نئی ٹیم ہے بالکل فریش ہے ابھی سال ہونے کو ہے وہ لوگ اتنی اچھی طرح کام سنبھال نہ پائیں ۔ سارہ: اتنے میں ایک دم سے اندر آتی ہے روم میں ارے تم سب لوگ یہاں کیا میٹنگ چل رہی ہے میرے پیچھے

کہانی قسط نمبر سات

کہانی قسط نمبر سات کہانی کا اگلا پڑاو  سارہ کال کیوجہ سے پریشان رہنے لگتی ہے اسکی آنکھیں کوئی نہ پڑھ لے اسلئے کالہ چشمہ بہانے سے لگائے رکھتی ہے ساتھ آفس میں سب سے زیادہ خود کو کام میں مصروف رکھتی ہے جب کہ بہن کی شادی کی دعوتیں چل رہی ہوتی ہیں ، وہ کم گو ہوجاتی ہے مگر بس اپنی آفس کی مارکیٹنگ ٹیم کے ساتھ ہفتے میں دو تین باہر ڈنر کرنے لگتی ہے ۔ جبکہ  لبنی، توقیر، یاسر ،شائستہ اور جنید ایک دوسرے سے مزید قریب ہوجاتے ہیں جبکہ سارہ ان کی باتوں پر ہاں ناں سا جواب یا وآٹس ایپ میسیج پر جواب ہی دیتی بات نہیں کرتی ۔۔۔۔ سارہ : آفس میں بیٹھی ہوتی ہے آفس کی چھٹی کا وقت کال آتی ہے سارہ کال دیکھتی ہے کال : شاہ صاحب کی سارہ: سلام شاہ انکل کیسے ہیں سب خیریت شاہ: جی سب ٹھیک بیٹا تم ملنے نہیں آئیں سارہ: انکل آج ہی تھوڑا فری ہوئی ہوں شاہ: تو بیٹا آجاو شام چائے یا ڈنر ساتھ کرتے ہیں سارہ : اچھا انکل میں آجاونگی شکریہ بلانے کا شاہ: اچھا بِیٹا بائی سارہ : ٹیک کئیر بائی ۔ جنید فون رکھتے ہی سارہ کے سامنے آجاتا ہے سارہ: جنید کچھ کہنا ہے ؟ جنید: ہاں پوچھنا تھا ہماری دوست سارہ کہاں ہوتی ہے ؟ سارہ: یا

کہانی قسط نمبر چھ

چھٹی قسط کہانی کو آگے لے کر چلتے ہیں سارہ فون کی گھنٹی بجنے پر نمبر دیکھ کر الگ جگہ جاکر بات کرتی ہے اور کچھ پریشان ہوجاتی ہے ۔ سارہ پریشانیوں کو چھپانا اچھے سے جانتی ہے وہ نارمل ہوکر سب کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے ۔۔ اور سب کو چائے پانی کو پوچھتی ہے ۔ ادھر سارہ کے کزنز بھی آجاتے ہیں ۔ ماجد ،اعظم و بابر ساتھ آرہے ہوتے ہیں جب کہ سامنے خالا کی بیٹیان ثناء و عظمی اور احسن ساتھ آتے ہیں سارہ ایک دم درمیان میں آکر تعارف کرواتی ہے ان کا آپس میں اور ساتھ لے جاکر اپنے دوستوں جنید، لبنی ، توقیر سے بھی ملواتی ہے ۔ سارہ اندر ہی اندر پریشان ہوتی ہے ۔ اتنے میں سامنے سے توقیر کے والد بھی آجاتے ہیں ۔ توقیر کے والد بچوں سے سلام دعا کرنے کے بعد سارہ کو بلاتے ہیں شاہ صاحب: سارہ بیٹا آج کل کیا ہورہا ہے جب توقیر نے بتایا تم اسکی دوست ہو ۔ سارہ: جی ابھی دو تین ماہ ہوئے دوستی کو ہماری زیادہ عرصہ نہیں۔ شاہ صاحب: بیٹا میں دیکھ رہا تھا تم کچھ پریشان ہو سارہ : نہیں انکل باکل نہیں مُسکراتے ہوئے شاہ صاحب: دیکھو بیٹا تم کو کوئی مسلہ ہو کبھی بھی تو مجھے میسیج یا کال کرلینا یہ لو میرا نمبر اور ہاں مجھ سے اکیلے میں بات

کہانی قسط نمبر پانچ

پانچویں قسط کہانی آگے بڑھتی ہوئی ۔ شائستہ کے والد و والدہ بات کرتے ہیں شائستہ کی رضامندی پوچھ کر ۔۔ اور یاسر سے کے والد سے کہتے ہیں بچے آپس میں مل کر جو فیصلہ کریں منظور جب شائستہ کو یاسر کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو شائستہ دنگ رہ جاتی ہے یہ تو یاسر ہیں سارہ کے دوست کے دوست ۔۔ شائستہ سارہ کو تصویر دکھاتی ہے ۔ سارہ : حیرانگی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں ۔۔۔ شائستہ : کیا ہوا سارہ اچھا نہیں کیا یہ ؟ سارہ: ارے نہیں جنید کا دوست ہے فائنانس و اکاونٹس دیکھتا ہے ایک فرم میں شائستہ : اچھا یعنی ملا جاسکتا ہے طریقے کا بندہ ہے نا ؟ سارہ: ہاں ریزرو ہے بس فرینڈ سرکل میں ہی فرینڈلی ۔۔ شائستہ : شکر ہے مجھے ایسے ہی انسان سمجھ آتے ہیں ، سارہ : چلو ملاقات کرلو ۔۔۔۔دیکھ لو سمجھ لو ۔ شائستہ : میں اندر سے تو ہاں کر چکی مگر امی ابو کو کہا ہے مل کر فیصلہ کرونگی سارہ: جیسے تم خوش میری گُڑدیا ۔۔۔ شائستہ : سارہ ۔۔۔کتنے عرصے بعد گُڑیا کہ کر پکارا ہے سارہ: ہاں تم پر پیار بہت عرصے بعد آیا ہے اب شائستہ و یاسر ملنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔۔ ساحل کے پاس دونوں ملتے ہیں شام کے وقت ۔۔ شائستہ و یاسر کی ملاقات اچھے خوشگوار ماحول میں

کہانی قسط نمبرچار

چوتھی قسط شائستہ اپنی خالہ وماموں کی بیٹیوں کے ساتھ شاپنگ پر ہوتی ہے ، جن میں خالہ کی بیٹیاں عثمی و ثناء اور ماموں کی بیٹیان سائرہ و عارفہ ہوتے ہیں ۔۔یہ لوگ شاپنگ کرکے نکلتے ہیں کہ احسن سامنے کتاب کی دوکان پر مل جاتا ہے سائرہ کو اور پھر یہ لوگ احسن کے ساتھ گاڑی میں اپنی ادھوری شاپنگ کرنے کا رونا روتے ہیں کہ پیسے ختم ہوگئے ۔احسن جھنجلا اٹھتا ہے کہتا ہے تم سب لوگ پیسے ایسے ضائع کردیتے ہو کوئی کتاب بھی پڑھ لیا کرو مجال ہے جو ایک کتاب بھی لی ہو ۔۔سائرہ کہتی ہے جی کت اب میں خود جاکر لے لیتی ہوں جناب ۔ سب گھر پر پہنچتے ہیں تو شام کا وقت چائے کا وقت ماموں وغیرہ سب چائے پینے لگتے ہیں ۔۔ جنید یاسر کے گھر بیٹھا آفس کی جگہ اور اس کے بارے میں بیٹھا سوچ رہا ہوتا ہے یاسر: ہاں بھائی بن گیا تمھارا آفس ؟؟ جنید : یار ۔۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی جگہ یا کسی کا کوئی جان پہچان کا جاننےوالا جس کا آفس فارغ ہو ۔ یاسر: بھائی دیکھ میں زیادہ لوگوں سے نہیں ملتا جُلتا ، ہاں سارہ سے پوچھو وہ مارکیٹنگ کی بندی ہے مارکیٹ میں اسکی جان پہچان ہم سب میں زیادہ ہوگی جنید: یار مشورہ تو ٹھیک ہے میں سوچ رہا

کہانی قسط نمبر تین

اب ریسٹورینٹ میں تیسری قسط جنید ، یاسر ، لبنی سارہ باتیں ہی کرہے ہوتے ہیں کہ توقیر آتا ہے ۔ جنید ،یاسر توقیر ایک طررف لبنی و سارہ ایک طرف بیٹھے ہوتے ہیں جنید کہتا ہے: سب اپنا اپنا تعرف کروادو بھئی خود سے تاکہ جان پہچان ہوسکے اور کہتا ہے کیونکہ میں نے سب کو بلایا ہے تو میں خود اپنا بتاتا ہوں باہر سے پڑھ کر آیا ہوں مینیجمنٹ میں ماسٹرز اور اچھے گھر سے ہوں بس ماں باپ میں علیحدگی ہے کچھ زیادہ خاص شوق نہیں ہیں ۔ توقیر: میں توقیر ایڈمنستڑیشن میں ماسٹرز اور شہر کے مشہور وکیل عمار شاہ کا بیٹا جنید کا جگری دوست ۔ یاسر: یار میں ایک سست شخص فائنانس و اکاونٹس میری فیلڈ ہے مینیجر ۔۔مڈل ۔ سارہ: میں ایک انٹرنیشنل فرم میں مارکیٹینگ اسٹریٹرجی مینیجر ہوں ۔ لبنی : میں بینک میں اکاونٹس دیکھتی ہوں اور ساتھ اکاونٹس میں نئی سہولتیں بنانے کے لئے رائے دیتی ہوں۔۔ سارہ: یار کھانا آرڈر کردو۔۔۔ جنید: یار لبنی و سارہ آرڈرکردو توقیر: ویٹر کو بلاتا ہے سارہ و لبنی : آرڈر کردیتی ہیں جنید : ایک بات سنو تم سب ۔۔۔ لبنی : کہو گے تو سنیں گے جنید: ہم سب لوگ مل کر اپنا کام کیوں نہ شروع کردیں سارہ: جنید کچھ زیادہ جلدی

کہانی قسط نمبر دو

دوسری قسط سارہ اور شائسہ کمرے میں موبائل لئے اورکوففی لئے باتیں کرہی ہوتی ہیں سارہ شائستہ سے مخاططب ہو کر "کیا ارادے ہیں آگے کے ؟" شائستہ کچھ نہیں یار مجھ سے مسلسل ایک جگہ ایک ہی لوگوں میں جاب نہیں ہوتی سارہ تو تم نے کیا سوچ کیا کرنا ہے ؟ شائستہ یار کچھ نہیں امی رشتہ کا کہ رہی تھیں میں نے کہ دیا سارہ سے پوچھ کر بتاونگی ۔۔ سارہ: اچھا چلو اب کہ جاب چھوڑو تو پھر شادی کی طرف جانا یہ نا ہو میاں جاب نہ کرنے دے ۔ شائستہ : پہلے ہی کہ دونگیں جاب میں کرونگی ضرور سارہ: ہاں یہ ٹھیک ہے ورنہ یہاں نوکری کرتی ہوئی لڑکیوں سے شادی کرتے ہوئے سب کتراتے ہیں ۔۔ اندازہ ہوا مجھے آفس کے آدمیوں سے بات کرکے جبکہ آفس کی ہر لڑکی پر نظر رکھنی ہے جنید گھر میں فریج دیکھتا ہے چیزیں ختم ہوئی ہوتی ہیں جوس نکال کر پیتا ہے ، چابی کو کی ہینگر سے نکالتا ہے اور پرس نکالتا ہے دراز سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ۔۔۔پرس چیک کرتا ہے پرس میں تین چار سو روپے پڑے ہوتے ہیں ۔ کھڑکی کے قریب آتا ہے کال ملاتا ہے باہر کا منظر دیکھتے ہوئے توقیر کو کال ملاتا ہے توقیر کھانے کی ٹیبل کی صفائی کا کہتا ہے نوکر سے اور فون اٹھاتا ہے

کہانی قسط نمبر ایک

پہلی قسط جنید کے دادا کی پہلی شادی سے ایک اولاد"حفیظ" ہوتی ہے بیوی کے جلدی مرجانے کے باعث دوسری شادی کرلیتے ہیں ....مگر دو بچے اور ہونے کے بعد مرجاتے ہیں دادا ...دوسری بیوی جیسے تیسے پال لیتی ہیں جنید کے ابو خاندانی امیر ہوتے ہیں لہذا دادا کے تینوں بچے آگے پیچھے نکل کر مسقتبل بنا ہی لیتے ہیں . جبکہ جنید کے والد "حفیظ"و والدہ "آسیہ" کی شادی افیکشن کو محبت سمجھنے کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ دونوں کو محبت اور ان چیزوں پر خاص یقین نہیں بس پریکٹیکل ہونے کیوجہ سے پہلے ہی بیٹے"جنید" کے ساتویں میں آتے ہی علیحدگی کے معاملت شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ "جنید" اگر وہ لوگ آخری وقت کو اچھے اختتام کرنے کی کوشش کرہے ہوتے ہیں مگر "جنید" ادھر اُدھر جاکر پہلے کی طرح نہیں رہتا خلاوں میں تکتا رہتا اورالگ کمرے میں لیٹے یا ٹی وی دیکھتے سوچتا رہتا ۔ جسکی وجہ سے "جنید" بہت سی رشتوں کے اندر کمیاں دیکھ چکا ہوتا ہے اوراندر سے ایک اُداس طبیعت جبکہ ویسے خوش اخلاق ہوتا ہے لڑکا کینیڈا سے پڑھ کر کراچی آتا ہے مینیجمنٹ میں ماسٹرز کر کے ...ماں باپ میں

بلوچستان آخر مسلہ ہے کیا؟

یوں تو بلوچستان کے بارے میں بات کریں تو فوراََ لوگوں کے ذہن میں آزادی کے متوالے(جو فقط فوج کو وہاں نہیں دیکھتا چاہتے) بلوچستان کے وہ ذہن میں آتے ہیں۔ تو دوسری طرف ریاستی تشدد و دہشتگردی اور دوسری طرف ناراض بلوچ یا علیحدگی پسندوں کی دہشتگردی، مگر کیا یہ سب اتنا آسان ہے کہ چند جملوں سے اس بات کا تصفیہ کرلیا جائے اور کہ دیا جائے کہ بلوچ سردار ذمہ دار ہیں اور ریاست؟کیا صرف بلوچستان میں یہ دو ہی طرز ہیں کیا تیسرا بلوچ وہ نہیں جو فقط امن چاہتا ہے کہ وہ جی سکے اور بہتر زندگی کے مواقع اور بہترین شہری سہولیات سے لُطف اندوز ہوسکے۔ یوں تو بلوچستان پر بات کرتے ہوئے سب کے پر جلتے ہیں کہ فرشتے وہاں موجود ہیں میڈیا وہاں چند جگہوں سے آگے نہیں جا سکتا سب خبریں ایف سی، رینجرز یا پاک فوج کی جانب سے میسر ہوتی ہیں۔اُسکے سوا کوئی ذریعہ نہیں اور میڈیا آنکھ بند کر کے چلانے پر گامز ن ہے۔ بلوچستان کی بات کریں تو ستر سالہ ریاستی جبر ایک طرف تو دوسری طرف بلوچ سرداروں کی ہٹ دھرمیاں بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں کیونکہ ریاست نے بلوچستان کو اپنے اندر شامل کیا تھا اس لحاظ سے رریاست کو اپنا عمل دخل کرکے وہاں ترقی کے

"بلا عنوان "

جب الفاظ نہ ہوں کہنے کو  جب کوئی جگہ نہ ہو ٹہر جانے کو بس سفر  میں تن تنہاہو جانے کو  کوئی سایہ بھی نہ ہو بیٹھ جانے کو  اور وحشتوں کو بڑھ جانے دو  پھر زندگی کسی شام ڈھل جانے کو  اورکوئی بھی نہ ہو گلے لگانے کو  پھر کیوں نہ جی چاہے مرجانے کو  تحریر : محسن علی

بم دھماکوں پر ایک نظم

بم دھماکوں پر ایک نظم لفظ نہیں پاس اب احساس بھی نہیں باتیں ہیں کہنے کو بہت ہزار مگر اب بات پھر بھی کچھ کہنے کوہے نہیں لاشیں،جنازے اور یہ دھماکے ہیں جی تو کرتا ہے پکڑلوں تم لوگ کے گریباں مگر کیا کروں،میں اہل قلم ہوں کوئی تشدد پسند تو تم سا نہیں تم حاکم، تم غاصب،تم اہل عقل کُل یہ معصوم جنازے،یہ سوال کچھ بھی نہیں تم اور اہل ِڈی ایچ اے رہے خوشحال یہ عوام کیڑے مکوڑے، اور کچھ بھی نہیں کراچی،لاہور،پشاور،کوئیٹہ،یا قبائل یہ سب فقط ہیں شہیدہونے کو مگر میرے یہ محافظ کے سالار یہ اہل زبان ہیں فقط،اور کچھ بھی نہیں جنازے میرے لوگ اٹھاتے ہیں روز تم کو ہو غور وفگر کا شوق تو یہ چند شرپسند تمھارے آگے پھر کچھ بھی نہیں کبھی ڈالر،کبھی ریال تو سی پیک مگر ان انسانوں کی جانیں تمھارے لئے کچھ بھی تو نہیں سوال اٹھاؤں گا تو مارا جاؤنگا میں تمھارے اگر عقیدے پر نہیں تو میں کچھ بھی تو نہیں آگ لگادوں میں الفاظ سے اگر مگر تم پر اثر کیا ہوگا بھلا کچھ بھی تو نہیں تحریر:محسن علی

محبت اور فلسفہ محبت ؟

محبت اور فلسفہ محبت ؟ محبت یوں تو کہنے کو فقط الفاظ ہیں مگر اس کے معنی کیا ہیں ؟ کیا یہ جذبہ وجود رکھتاہے ؟ کیا اس کو ہم ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ آج کا دور ثابت کرنے کا دور ہے عقلی دلیل سے ک،یا لوگ محبت میں مر کر اس کو ثابت کرسکے یا محبت فقط ایک خوبصور لفظ ہے اور کہیں وجود نہیں رکھتا. میں کہوں گا محبت کائنات کی بنیاد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں سب چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں، اس جُڑے رہنے کا نام محبت ہے جس کی وجہ سے کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اسی کی وجہ سے اس کے سب رنگ اونچائیاں گہرائیاں زمین کا ٹھہراؤ سب کے میل جول سے کائنات ہے . اگر اب اگر اس لفظ محبت کو انسانی جذبات کے سانچے میں رکھ کر جانچیں تو دیکھیں کہ جب ماں بچے کو گود میں لیتی ہےاپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے،اسی طرح دیگر لوگ اسے اپنی گود میں لے کر اپنا احساس دلاتے ہیں ،جبکہ اجنبی لمس پاتے ہی بچہ رونے لگتا ہے۔یعنی اپنائیت کا احساس محبت ہے . اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک جنس کا دوسری جنس کے احساس کو قبول کرنے کا نام محبت ہے . دیکھا جائے تو پھول کا ٹہنی کانٹوں و پتوں کے درمیان کھلنا یعنی سب کی محبت

احساس ...!

!احساس۔۔۔ احساس یہ لفظ جتنا گزشتہ دس سالوں میں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھا ہے اتنا احساس لوگوں میں جاگا نہیں ہے وجہ کیا ہے ایسا کیونکر ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سی بڑی بڑی باتوں کا احساس کرکے سمجھتے ہیں ہم حساس ہیں اور احساس کرنا جان گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان بڑی باتوں پر احساس دکھلادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے فلاحی اداروں میں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ان کام کرنے والوں میں احساس ہوتا ہے مگر ان ہی لوگوں کا برتاؤ اپنے ہی لوگوں سے بے حس طرز کا ہوتا ہے ۔یہی حال معاشرے کے تمام تر انسانوں کا ہے ایک طرف حکومت کو گالیاں دے کر لوگ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خود اپنے رویوں اور لفظوں اور لہجوں پر غور نہیں کرتے کیا آپ کسی کو گالی دے کر احساس دلاسکتے ہیں ؟ یہ آپ اُس کی تذلیل کریں گے یا اس کو کچھ سمجھائیں گے ؟ کیا غصے کی حالت میں انسان سمجھ سکتا ہے ؟کیا ضروری ہے فقط دوسروں کو احساس دلایا جائے اور اپنا احساس نہیں دیکھا جائے جس طرح دوسروں سے مخاطب ہوتے کیا آپ سے اس طرح کوئی مخاطب ہو تو آپ کو اچھا لگے گا ؟ دوستی میں یہ سب چلتا ہے کیوں دوست بے حس ہوتے ہیں؟ گھر می

"روز"

"روز" میں ٹوٹا ہوا آسمان سے آگرا ہوں  نہ جانے میں کس جُرم کی سزا ہوں  ہوں تو سلامت مکمل کہنے کو  پھر بھی اپنے آپ میں تنہا ہوں  یہ تنہائیاں اور وحشتیں ہیں ایسے  کہ خود میں سمٹ کر ٹوٹ گیا ہوں  ایک پیاس ہے اس روح کو عجب سی  تیرے خیالوں سے روح معطر کرہا ہوں  نہ جانے کیونکر آئی ہے تو زندگی میں  تیری حسرت لئے میں روز مررہا ہوں  یوں تو ایک میں ہی گمراہ نہیں ہوں  پھر بھی انجان آس لئے دعا کرہا ہوں  تجھ کو مجھ سے نہیں کوئی محبت  روز کیوں تیرے ہی خواب دیکھ رہا ہوں  یہ محبت یہ عشق یہ کوئی پاگل پن  نہیں مجھے یہ سب کچھ معلوم مگر  تیرےواسطے میں اپنی ذات سے لڑ رہا ہوں  تم نہ ملی تو نہ جانے جیوں گا بھی کیسے  میں یہ سوچ کر روز پھر مررہا ہوں تحریر:محسن علی

بھابی و دیور

بھابی و دیور  اگر اس رشتے کی بات کی جائے تو یہ بہت پیارا تو کبھی خوفناک دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کے گرد نظر ڈالیں اور اس میں شک کی گنجائش زیادہ اور یقین کم ہوتا ہے دو بھائیوں کے درمیان اور مائیں بھی جو بیٹا دیور ہوتا ہے اسکو بار بار محتاط ہونے کی تنبیہ کرتی ہیں مگر میں آپ کو بتانا چاہونگا ۔اپنی زندگی کے حوالے سے، آپ یقین کریں نا کریں ۔دو ہزار پانچ میں میں اس فلیٹ میں شفٹ ہوا جس میں آج تک رہ رہا ہوں۔ یہاں فلیٹ کے لڑکے سمجھ نہیں آئے تو لہٰذاکیفے پر ایک لڑکے اصغر سے دوستی ہوگئی اور اتنی گہری ہوگئی کہ اسکے گھر آنا جانا کھانا پینا کبھی سوجانے تک۔ وہ بھی سامنے فلیٹ میں ہی رہتا روڈ پار مگر خاص بات یہ تھی کہ میری اسکے سب گھروالوں سے بہت اچھی بات چیت تھی ۔بھابی، بھابی کم بالکل ماں کی طرح۔ کسی وقت بھی بے دھڑک چلے جاو دروازہ کھلا ہو یا بند یوہی اندر گھس جاو اتنی بے تکلفی تھی۔ پھر یوں ہوا ایک بار والد صاحب نے حسب روایت گھر سے کسی بات پر نکال دیا ۔رات تین بجے تو انکے گھر گیا اصغر نہیں تھا ۔بھابی نے دروازہ کھولتے ہی پوچھابیٹا کہاں سے آرہے ہو، تھکے ہوئے ہو کھانا لاوں آو سوجاو آرام س

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی

خود کشی ۔۔۔ایک فرضی کہانی یہ کہانی دو ایسے اچھوتے دوستوں کی ہے جو کبھی ملے نہیں مگر ان میں جتنا اختلاف تھا اتنا اتفاق بھی ،وہ دونوں واقعی میں دو جسم ایک جان جیسے دوست تھے۔ ان کی دوستی ذہنی طور پر اتنی مضبوط تھی کہ حیرانی ہو ۔مگر ان کے درمیان رابطہ کا ذریعہ فقط سوشل میڈیا یا کمیونیکشن رہا تھا مگر دونوں کی زندگی کے تجربات میں ایک سی اذیتیں تھیں ۔ ایک کا نام عتیقہ اور ایک دوسرے کا نام مہتشم ۔ تقریبا ًوہ دونوں دیکھنے میں عام انسانوں کی مانند مگر عتیقہ بے حد مضبوط اعصاب کی اور دوسرا بات بے بات پر رودینے والا جذباتی طبیعت کا مگر وہ بس چند دوستوں تک ہی محدود سوشل میڈیا پر ہوکر رہ گیا تھا۔ اس نے ارادہ بنالیا تھا کہ اپنی محبت کو اب کہ نا حاصل کرسکا ۔ وہ ملے تو آگے زندگی اور نہ ملے تو موت طے کرچکا تھا مگر اس کے سب دوست سوائے اس کی ایک دوست عقیقہ کے سب اس فعل کو برا جانتے تھے مگر وہ جان گیا تھا ۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ ذہن و روح کی صدیوں کی پیاس وہ بجھا سکے گا اور اگر نہ پاسکا تو بھٹکتا رہے گا ۔عمر بھر اس کا یقین پختہ ہوگیا تھا ۔ آخر وہ بہت کوششوں کے بعد اُس لڑکی ج

عورت کیا پہنے ؟

عورت کیا پہنے کیا نہیں یہ ہ بات ہمہشہ سے معاشرہ مذھب اور روایتں طے کرتے آئے ہیں . آج بھی ایک ماڈرن عورت سعودی جائے تو اسے ابایہ اور اسکارف پہننا پڑتا ہے . . کچھ مغربی ممالک میں اس کے اسکارف پہ پابندی ہے طالبان کی حکومت آئے تو ان کو برقع پہنایہ جاتا ہے پہر سیکیولر حکومت میں آئیں تو ان کا برقع اتروادیا جاتا ہے . . پاکستان میں ہے کسی چھوٹے شہر سے تعلق رکھتی تو شلوار قمیس پہنے . باپ یا بھائی ملا ہے تو حجاب پہنوا دیا جاتا ہے شوہر ماڈرن خیال کا ہے تو حجاب اتروانے پہ بضد ہے جب کہ یہ مرد باہر اگر دھوتی میں بھی چلے جائے تو کسی کا ایمان خراب نہیں ہوتا نہیں کسی کے تھذیب کو ٹھیس نہیں پڑتی ہے .یہی مرد جہان چاہیں جو لباس پہنیں انہیں کوئی کچہ نہیں کہ سکتا . .ساری دنیا میں اس کا لباس یونیورسل ہے . پھر بہت سے لوگ عورتوں کی ڈریسنگ پہ کمینٹس کرتے نظر آئین گے . کوئی تو ان کے میک اپ کرنے پہ اعتراض کرتے ہیں تو کوئی ان کی میک اپ نہ کرنے پہ سیاست میں ہے تو دوپٹہ پہنے ٹی وی پہ تو دوپٹہ اتار دے . آج کل عورتون کے برینڈ ڈ کپڑے پہننے پہ اعتراض ہو رہا ہے آج تک ہمیشہ مردوں کو ہی راڈو گھڑی نائکی کے شوز پہنت

" چائے " 3

Image
" چائے " یوں نہیں ہو سکتا , تم کاندهے پہ سر رکهو، کچه کہ کے چپ ہو جاو، میں تم کو دیکهوں , تم کہیں کهو جاو،  چائے کی پیالی لبوں سے لگا کے, تم مجه میں دهواں ہو جاو . تحریر:محسن علی

"چائے..". .. 2

Image
"چائے..". جب بهی میں پیتا ہوں ، اس کے دهویں سے، چہرہ اس کا سامنے آ جاتا ہے، جب تک چائے کی آ خری چسکی نہ لے لوں ، اس کا چہرہ مسکراتا میرے سنگ چائے پیتا، مجهے حوصلہ دیتا، کہ میں تمہاری ہوں، تمہیں نہ کرنے کا مطلب تمہیں ناکام کرنا ہے، دیکهو میں اپنی پسند پہ زندگی نہیں گزار رہی، تو تم بهی میرے جیسے بننے کی کوشش کرو، دیکهو تم خود کو چهو کے مجهے چهوتے ہو، ایسے ہی میں بهی، خیالوں کے گمان میں یہ گناہ کرتی ہوں، مگر محبت نہیں کرتی، اور چائے کی آخری چسکی لے لیتی ہوں. تحریر:محسن علی