Posts

عاصمہ جہانگیر۔۔۔کیا واقعی مرگئیں؟

Image
عاصمہ جہانگیر۔۔۔کیا واقعی مرگئیں؟ عاصمہ جہانگیرایک انتہائی پُر اسرار شخصیت ہمارے معاشرے کی وہ عورت جنہوں نے ہم جیسے مردوں کو جان دی اور مُردہ سوچ اُنکی موت پر پر اپنی غلاظت سے بعض نہ آسکے۔میں عاصمہ جہانگیرکو پہلی بار جب جانا جب شروع شروع میں مُشرف نے ایل ایف اور کے ذریعے طاقت حاصل کی۔مجھے اُس وقت انکی سوچ سے ایک عجیب اکتاہٹ ہوتی کہ یہ کس طرح کیسے ممکن ہے کیا کہ رہیں ہیں۔ایسا کیوں کہ رہیں ہیں؟مجھے شروع میں اختلاف رہا مگر وقت کے ساتھ اُنکی باتیں اثر کرتیں رہیں پھر جب سوشل میڈیا پر پہلی بار انکے خلاف مہم چلی تو میں اُس وقت تک کااُنکا حامی ہوچکا تھا۔ میری تکرار رہی اپنے آفس ورکرز کے ساتھ اور گھر کے لوگوں کے ساتھ مگر پھر رفتہ رفتہ میں بھی اُنکو دیکھا دیکھی سڑکوں پر جا نکلا دوہزار تیرا میں اور پھر وہ میرے لئے ایک استاد بن گئیں۔میں جب بھی انہیں دیکھا تو ایک عجیب سی شخصیت دکھیں۔ مگر حیرانی ہوئی جب عافیہ صدیقہ اور پھر گزشتہ سالوں میں زید حامد کی جب بات کی تو دل کیا اُن سے ملک کر اُنکو سلام کروں مگر ممکن نہ ہوسکا۔ عاصمہ جہانگیر ایک زمانہ ساز شخصیت رہیں اور زمانے کبھی مرا نہیں کرتے۔اگر

مُکا، متحد ہوجاو اور 33 ارب کی کہانی ۔۔محسن علی

Image
بات مُکے سے شروع کرنا چاہوں گا جب پاکستان بنا تو سب پاکستانی ہی تھے پہلے مگر جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اور اُسی تقریر کا مُکا مُکا چوک پر نصب تھا ، لیاقت علی کے دور میں  قرارداد مقاصد پیش ہوئی اور یہ طے ہوا  کہ آئین اسلامی اصولوں کے تحت ہوگا مگر اُن کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خان آئے چھپن کا آئین بنا ساتھ تفریق کی پہلی لکیر محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا  کر رکھی گئی اور پھر باسٹھ کا سیکولر آئین بنا، اُن ہی کے دور میں یحیی خان کی رنگینی نے مزید ہوا دی اور بنگلہ دیش اکثریت نے اقلیت کو چھوڑا اس تفریق کی لکیر  کی پابندی جمہوری دور میں ہوئی اور بلوچ حکومت پر شب خون مارا گیا۔ جناب آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے جی ایم سید و باچا خان  باقی پاکستانیوں کی نظر میں غدار ٹھہرے  اور اس تفریق کا رنگ  مزید  گہرا کردیا۔ پھر آپ کے ہی ہلکے آشیرواد سے تفریق نے زور پکڑا اور مذہبی جنونیت بڑھی ،پھر اُس کو ختم کرنے  کے لیے آپ نے بلوچستان کے رستے متحدہ کو اسلحہ فراہم کرکے مزید تقویت دی۔ ساتھ ایک فرقے کو ریاستی سرپرستی میں پالا اور مسلط کیا، بات یہیں  ختم نہ ہوئی۔ آپ کی پالیسی کا نتیجہ جاگ پنجابی جاگ نکلا ،

The boy in the Jungle

The boy in the Jungle Once upon a time, their lived a man, on a deserted island.  He only wore a beautiful red hat and use to cover himself with plants or if he found any type of animal skin. He drank water from the sea and ate fish if he felt hungry. He had a hut made up of coconut tree.  He had arrow from which he use to hunt fishes. One day he went to deeper in the island he saw a beautiful jungle as he went inside he felt hungry he walked and walked.  He was stared everything was new for him. After few minutes he saw a Rhinoceros walking near to him . he very scared moving backward he had an idea. He just threw his arrow high in the sky. The Rhinoceros thought that now that man could kill him  the Rhino came fast running to him with his head down  and in 2-3 seconds arrow landed into Rhinoceros neck soon he died.  Now this young man ate Rhino. He made his hut in the middle of island so he could also drink water and he hunt new animals every day. Written by  "A Ten Ye

ّّّؓؓؓآرمی چیف صاحب سے چند سوالات۔۔۔

Image
سرکارآپ نے بتایا 161مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی تو 56کو ہی اب تک کیوں دی گئی۔۔ باقی دہشتگردوں کو بھی سزا کے بعد تیزی سے سزا دی جاسکتی تھی یا مدت ختم ہونے کا انتظارہے؟ سرکار 28مارچ سے اب تک 105دن سے زائد ہوتے ہیں روز ایک کو بھی پھانسی دیتے تو سب کو سزائے موت دے چکے ہوتے سمجھنے سے قاصر ہوں میں۔۔ سر کار 160میں سے 33پر فیصلہ ہوا تو پھر فوجی عدالتیں بھی طویل ہونے لگیں کسی دور میں Kangroo Courtsکی طرح دوڑ لگاتی تھیں سترہ ایجینساں مجرم پکڑے جانے کے بعد اگر ثبوت نہ لاسکیں تو کیا سمجھوں سرکار؟ سرکار آپ نے بتایا خیبر و فاٹا میں ملا کر 1249کومبنگ اور انٹیلی جینس بیس آپریشن کئے مجھے یقین ہے آپ لوگوں نے کم از کم 622لوگ گرفتار کئے ہونگیں تو کیا ان کے مقدمات بھی قائم کئے کہیں پیش کیا انہیں یا ان آپریشن سے کیا حاصل ہوا اب تک؟ سرکار پنجاب میں 13011آپریشن میں کم از کم 605لوگ آپ نے پکڑیں ہونگیں کیا سب دہشتگرد تھے یا دہشتگردوں نے جبری ان کو استعمال کیا  یا پنجاب کے آپریشن اور خیبروفاٹا کے آپریشنز سے کیا نئی بات معلوم ہوئی اداروں کو کن نئی تنظیموں کے نام سامنے آئے؟ بلوچستان میں 1410آپریشن

#FindRaza

Image

کہانی قسط نمبر دس

کہانی قسط نمبر دس "سارہ کے گزشتہ بوئائے فرینڈ کی انتری عاطف کے بڑے بال اسمارٹ سا چشمہ لگا ہوا ۔۔۔ لمبے قد کا ، گرے ٹی شرٹ اور جینز میں اوپر کورٹ بلیک سردیوں کے دن " سارہ ایک فلیٹ میں گُھستی ہے چابی سے دروازہ کھول کر اور پرس سے فون نکال کر کال کرتی ہے سارہ خوش بھی ہوتی ہے چہرے سے مگر کچھ اکیلا پن بھی ہوتا ہے کیونکہ اُسکا جو ایک بوائے فرینڈ ہوتا ہے اُس سے وہ ملنے آتی ہے جو ایک ڈیڑھ سال میں اُسکو اُسکی بچی دے دیگا اور دونوں میں ہمیشہ کے لئے علیحدگی ہوجائیگی صرف دوست رہ جائینگے ۔ سارہ اکیلی بیٹھی ہے وہ سوچتی ہے سوال اٹھتا ہے اُسکے اندر سے سارہ کیا تم عاطف کو واقعی چھوڑ دوگی سارہ با آواز کہتی ہے خود سے کہتی ہے ہاں میں فیصلہ کرچُکی سارہ تو اتنآ قریب کیوں گئیں تھیں اُسکے سارہ با آواز کہتی ہے میں نویں میں تھیں مجھے زندگی کا نہیں معلوم تھا اور انسان کی جنسی ضرورت بھی ہوتی ہے شائد جنسی ضرورت کو میں اور وہ محبت سمجھ بیٹھے تھے تو زارا پیدا ہوگئی ۔ سارہ کیا تم آج واقعی آخری بار مل رہی ہو کیا تم پھر ٹوٹ کر نہیں بکھروگی آج تمھارے جذبات و احساسات ایک بے چینی سے کیوں ہے تم میں ؟ سارہ

کہانی قسط نمبر نو

قسط نمبر نو سارہ گھر پر بیٹھی کمرے میں ٹیبل پر اپنے ، اسکی بہن شائستہ گھر آئی ہوئی رکنے کے لئے ساتھ بیٹھی شاءستہ ٹی وی دیکھ رہی ہوتی ٹی بند کرکے وہ سارہ سے مخاطب ہوتی ہے ۔ شائستہ : سارہ یار ایک بات سوچ رہی تھی میں سارہ : شائستہ تم اور سوچتی ہو اس کا مجھے کبھی گمان بھی نہیں ہوئے شائستہ : میں مذاق نہیں کرہے یار ۔۔۔۔ سارہ: بچپن سے آج تک کبھی تم نے کوئی بات کہی نہیں اس طرح سے کہ تم کچھ سوچ رہی ہو اسلئے میں نے کہا شائستہ : بات سنو گی یا کام میں مصروف ہو تو ٹال رہیں سارہ : ارے یار میری جان کہو میں مصروف ہوں مگر تم سے بڑھ کر نہیں تم کہو کیا سوچ رہی تھیں شائستہ : میں سوچ رہی تھی آپ منگنی یا شادی وغیرہ کرلیں سارہ : شائستہ تم جانتی ہو میں کسی دوسرے کی رائے سے کبھی کچھ نہیں کیا جب تک میرا دل نہیں ہوا تم سب لوگ مجھ سے یہ بات کہنا چھوڑدوگے میں خود کچھ کرلونگی ۔ شائستہ :سارہ تم تو برا ہی مان گئیں یار ۔۔ سارہ: دیکھو یار میں پریکٹیکل قسم کی لڑکی ہوں شروع سے اسلئے تمھاری شادی کو سال ہونے آیا میں نے تم سے نہیں کہا یار بچہ کب آرہا ہے ہنی مون پر کیا کیا؟ کیونکہ میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں جاتی اسلئے

کہانی قسط نمبر آٹھ

آٹھویں قسط سارہ : آفس میں کام اپنی ٹیم کو دے کر ، جنید کو ایکسٹینشن کرتی ہے کچھ بات کرنی ہے فری ہو تو آوں ۔ جنید: دوسری طرف ہاں آجاو کام آج کم ہے میرے پاس کچھ سارہ: کمرے میں داخل ہوتی ہے جنید مجھے کچھ دنوں کی چھٹیاں چاہئے جنید: کیا شادی کے لئے یا کس وجہ سے ایپلیکشن دے دو میں اپروو کردونگا سارہ: ہاں بس دس بارہ دن کی چاہئے جنید : ایسا کرو آج تو منگل ہے اگلے منگل سے لے لو ۔ سارہ: کچھ سوچتے ہوئے نہیں مجھے اس مہینے نہیں اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی چاہئے ۔ جنید: کلینڈر پر نظر ڈالتے ہوئے اچھا پر سنو پہلے پیر آجانا اگلا مہینہ پیر سے شروع ہے ۔ سارہ: اچھا چلو ٹھیک ہے ۔ جنید سارہ کے جانے کے بعد توقیر و بابر کو بلاتا ہے کمرے میں اور ساتھ لبنی بھی آجاتی ہے جبکہ سارہ ۔۔آفس سے باہر نکل جاتی ہے ۔ جنید : یار دیکھو سارہ اگلے ماہ چھٹیوں پر جائیگی تو ہم کو سب کچھ دیکھنا ہوگا تم سب لوگ اس سے تھوڑا کام لے لو کیونکہ اس کے پاس نئی ٹیم ہے بالکل فریش ہے ابھی سال ہونے کو ہے وہ لوگ اتنی اچھی طرح کام سنبھال نہ پائیں ۔ سارہ: اتنے میں ایک دم سے اندر آتی ہے روم میں ارے تم سب لوگ یہاں کیا میٹنگ چل رہی ہے میرے پیچھے

کہانی قسط نمبر سات

کہانی قسط نمبر سات کہانی کا اگلا پڑاو  سارہ کال کیوجہ سے پریشان رہنے لگتی ہے اسکی آنکھیں کوئی نہ پڑھ لے اسلئے کالہ چشمہ بہانے سے لگائے رکھتی ہے ساتھ آفس میں سب سے زیادہ خود کو کام میں مصروف رکھتی ہے جب کہ بہن کی شادی کی دعوتیں چل رہی ہوتی ہیں ، وہ کم گو ہوجاتی ہے مگر بس اپنی آفس کی مارکیٹنگ ٹیم کے ساتھ ہفتے میں دو تین باہر ڈنر کرنے لگتی ہے ۔ جبکہ  لبنی، توقیر، یاسر ،شائستہ اور جنید ایک دوسرے سے مزید قریب ہوجاتے ہیں جبکہ سارہ ان کی باتوں پر ہاں ناں سا جواب یا وآٹس ایپ میسیج پر جواب ہی دیتی بات نہیں کرتی ۔۔۔۔ سارہ : آفس میں بیٹھی ہوتی ہے آفس کی چھٹی کا وقت کال آتی ہے سارہ کال دیکھتی ہے کال : شاہ صاحب کی سارہ: سلام شاہ انکل کیسے ہیں سب خیریت شاہ: جی سب ٹھیک بیٹا تم ملنے نہیں آئیں سارہ: انکل آج ہی تھوڑا فری ہوئی ہوں شاہ: تو بیٹا آجاو شام چائے یا ڈنر ساتھ کرتے ہیں سارہ : اچھا انکل میں آجاونگی شکریہ بلانے کا شاہ: اچھا بِیٹا بائی سارہ : ٹیک کئیر بائی ۔ جنید فون رکھتے ہی سارہ کے سامنے آجاتا ہے سارہ: جنید کچھ کہنا ہے ؟ جنید: ہاں پوچھنا تھا ہماری دوست سارہ کہاں ہوتی ہے ؟ سارہ: یا

کہانی قسط نمبر چھ

چھٹی قسط کہانی کو آگے لے کر چلتے ہیں سارہ فون کی گھنٹی بجنے پر نمبر دیکھ کر الگ جگہ جاکر بات کرتی ہے اور کچھ پریشان ہوجاتی ہے ۔ سارہ پریشانیوں کو چھپانا اچھے سے جانتی ہے وہ نارمل ہوکر سب کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے ۔۔ اور سب کو چائے پانی کو پوچھتی ہے ۔ ادھر سارہ کے کزنز بھی آجاتے ہیں ۔ ماجد ،اعظم و بابر ساتھ آرہے ہوتے ہیں جب کہ سامنے خالا کی بیٹیان ثناء و عظمی اور احسن ساتھ آتے ہیں سارہ ایک دم درمیان میں آکر تعارف کرواتی ہے ان کا آپس میں اور ساتھ لے جاکر اپنے دوستوں جنید، لبنی ، توقیر سے بھی ملواتی ہے ۔ سارہ اندر ہی اندر پریشان ہوتی ہے ۔ اتنے میں سامنے سے توقیر کے والد بھی آجاتے ہیں ۔ توقیر کے والد بچوں سے سلام دعا کرنے کے بعد سارہ کو بلاتے ہیں شاہ صاحب: سارہ بیٹا آج کل کیا ہورہا ہے جب توقیر نے بتایا تم اسکی دوست ہو ۔ سارہ: جی ابھی دو تین ماہ ہوئے دوستی کو ہماری زیادہ عرصہ نہیں۔ شاہ صاحب: بیٹا میں دیکھ رہا تھا تم کچھ پریشان ہو سارہ : نہیں انکل باکل نہیں مُسکراتے ہوئے شاہ صاحب: دیکھو بیٹا تم کو کوئی مسلہ ہو کبھی بھی تو مجھے میسیج یا کال کرلینا یہ لو میرا نمبر اور ہاں مجھ سے اکیلے میں بات

کہانی قسط نمبر پانچ

پانچویں قسط کہانی آگے بڑھتی ہوئی ۔ شائستہ کے والد و والدہ بات کرتے ہیں شائستہ کی رضامندی پوچھ کر ۔۔ اور یاسر سے کے والد سے کہتے ہیں بچے آپس میں مل کر جو فیصلہ کریں منظور جب شائستہ کو یاسر کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو شائستہ دنگ رہ جاتی ہے یہ تو یاسر ہیں سارہ کے دوست کے دوست ۔۔ شائستہ سارہ کو تصویر دکھاتی ہے ۔ سارہ : حیرانگی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں ۔۔۔ شائستہ : کیا ہوا سارہ اچھا نہیں کیا یہ ؟ سارہ: ارے نہیں جنید کا دوست ہے فائنانس و اکاونٹس دیکھتا ہے ایک فرم میں شائستہ : اچھا یعنی ملا جاسکتا ہے طریقے کا بندہ ہے نا ؟ سارہ: ہاں ریزرو ہے بس فرینڈ سرکل میں ہی فرینڈلی ۔۔ شائستہ : شکر ہے مجھے ایسے ہی انسان سمجھ آتے ہیں ، سارہ : چلو ملاقات کرلو ۔۔۔۔دیکھ لو سمجھ لو ۔ شائستہ : میں اندر سے تو ہاں کر چکی مگر امی ابو کو کہا ہے مل کر فیصلہ کرونگی سارہ: جیسے تم خوش میری گُڑدیا ۔۔۔ شائستہ : سارہ ۔۔۔کتنے عرصے بعد گُڑیا کہ کر پکارا ہے سارہ: ہاں تم پر پیار بہت عرصے بعد آیا ہے اب شائستہ و یاسر ملنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔۔ ساحل کے پاس دونوں ملتے ہیں شام کے وقت ۔۔ شائستہ و یاسر کی ملاقات اچھے خوشگوار ماحول میں

کہانی قسط نمبرچار

چوتھی قسط شائستہ اپنی خالہ وماموں کی بیٹیوں کے ساتھ شاپنگ پر ہوتی ہے ، جن میں خالہ کی بیٹیاں عثمی و ثناء اور ماموں کی بیٹیان سائرہ و عارفہ ہوتے ہیں ۔۔یہ لوگ شاپنگ کرکے نکلتے ہیں کہ احسن سامنے کتاب کی دوکان پر مل جاتا ہے سائرہ کو اور پھر یہ لوگ احسن کے ساتھ گاڑی میں اپنی ادھوری شاپنگ کرنے کا رونا روتے ہیں کہ پیسے ختم ہوگئے ۔احسن جھنجلا اٹھتا ہے کہتا ہے تم سب لوگ پیسے ایسے ضائع کردیتے ہو کوئی کتاب بھی پڑھ لیا کرو مجال ہے جو ایک کتاب بھی لی ہو ۔۔سائرہ کہتی ہے جی کت اب میں خود جاکر لے لیتی ہوں جناب ۔ سب گھر پر پہنچتے ہیں تو شام کا وقت چائے کا وقت ماموں وغیرہ سب چائے پینے لگتے ہیں ۔۔ جنید یاسر کے گھر بیٹھا آفس کی جگہ اور اس کے بارے میں بیٹھا سوچ رہا ہوتا ہے یاسر: ہاں بھائی بن گیا تمھارا آفس ؟؟ جنید : یار ۔۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی جگہ یا کسی کا کوئی جان پہچان کا جاننےوالا جس کا آفس فارغ ہو ۔ یاسر: بھائی دیکھ میں زیادہ لوگوں سے نہیں ملتا جُلتا ، ہاں سارہ سے پوچھو وہ مارکیٹنگ کی بندی ہے مارکیٹ میں اسکی جان پہچان ہم سب میں زیادہ ہوگی جنید: یار مشورہ تو ٹھیک ہے میں سوچ رہا

کہانی قسط نمبر تین

اب ریسٹورینٹ میں تیسری قسط جنید ، یاسر ، لبنی سارہ باتیں ہی کرہے ہوتے ہیں کہ توقیر آتا ہے ۔ جنید ،یاسر توقیر ایک طررف لبنی و سارہ ایک طرف بیٹھے ہوتے ہیں جنید کہتا ہے: سب اپنا اپنا تعرف کروادو بھئی خود سے تاکہ جان پہچان ہوسکے اور کہتا ہے کیونکہ میں نے سب کو بلایا ہے تو میں خود اپنا بتاتا ہوں باہر سے پڑھ کر آیا ہوں مینیجمنٹ میں ماسٹرز اور اچھے گھر سے ہوں بس ماں باپ میں علیحدگی ہے کچھ زیادہ خاص شوق نہیں ہیں ۔ توقیر: میں توقیر ایڈمنستڑیشن میں ماسٹرز اور شہر کے مشہور وکیل عمار شاہ کا بیٹا جنید کا جگری دوست ۔ یاسر: یار میں ایک سست شخص فائنانس و اکاونٹس میری فیلڈ ہے مینیجر ۔۔مڈل ۔ سارہ: میں ایک انٹرنیشنل فرم میں مارکیٹینگ اسٹریٹرجی مینیجر ہوں ۔ لبنی : میں بینک میں اکاونٹس دیکھتی ہوں اور ساتھ اکاونٹس میں نئی سہولتیں بنانے کے لئے رائے دیتی ہوں۔۔ سارہ: یار کھانا آرڈر کردو۔۔۔ جنید: یار لبنی و سارہ آرڈرکردو توقیر: ویٹر کو بلاتا ہے سارہ و لبنی : آرڈر کردیتی ہیں جنید : ایک بات سنو تم سب ۔۔۔ لبنی : کہو گے تو سنیں گے جنید: ہم سب لوگ مل کر اپنا کام کیوں نہ شروع کردیں سارہ: جنید کچھ زیادہ جلدی

کہانی قسط نمبر دو

دوسری قسط سارہ اور شائسہ کمرے میں موبائل لئے اورکوففی لئے باتیں کرہی ہوتی ہیں سارہ شائستہ سے مخاططب ہو کر "کیا ارادے ہیں آگے کے ؟" شائستہ کچھ نہیں یار مجھ سے مسلسل ایک جگہ ایک ہی لوگوں میں جاب نہیں ہوتی سارہ تو تم نے کیا سوچ کیا کرنا ہے ؟ شائستہ یار کچھ نہیں امی رشتہ کا کہ رہی تھیں میں نے کہ دیا سارہ سے پوچھ کر بتاونگی ۔۔ سارہ: اچھا چلو اب کہ جاب چھوڑو تو پھر شادی کی طرف جانا یہ نا ہو میاں جاب نہ کرنے دے ۔ شائستہ : پہلے ہی کہ دونگیں جاب میں کرونگی ضرور سارہ: ہاں یہ ٹھیک ہے ورنہ یہاں نوکری کرتی ہوئی لڑکیوں سے شادی کرتے ہوئے سب کتراتے ہیں ۔۔ اندازہ ہوا مجھے آفس کے آدمیوں سے بات کرکے جبکہ آفس کی ہر لڑکی پر نظر رکھنی ہے جنید گھر میں فریج دیکھتا ہے چیزیں ختم ہوئی ہوتی ہیں جوس نکال کر پیتا ہے ، چابی کو کی ہینگر سے نکالتا ہے اور پرس نکالتا ہے دراز سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ۔۔۔پرس چیک کرتا ہے پرس میں تین چار سو روپے پڑے ہوتے ہیں ۔ کھڑکی کے قریب آتا ہے کال ملاتا ہے باہر کا منظر دیکھتے ہوئے توقیر کو کال ملاتا ہے توقیر کھانے کی ٹیبل کی صفائی کا کہتا ہے نوکر سے اور فون اٹھاتا ہے

کہانی قسط نمبر ایک

پہلی قسط جنید کے دادا کی پہلی شادی سے ایک اولاد"حفیظ" ہوتی ہے بیوی کے جلدی مرجانے کے باعث دوسری شادی کرلیتے ہیں ....مگر دو بچے اور ہونے کے بعد مرجاتے ہیں دادا ...دوسری بیوی جیسے تیسے پال لیتی ہیں جنید کے ابو خاندانی امیر ہوتے ہیں لہذا دادا کے تینوں بچے آگے پیچھے نکل کر مسقتبل بنا ہی لیتے ہیں . جبکہ جنید کے والد "حفیظ"و والدہ "آسیہ" کی شادی افیکشن کو محبت سمجھنے کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ دونوں کو محبت اور ان چیزوں پر خاص یقین نہیں بس پریکٹیکل ہونے کیوجہ سے پہلے ہی بیٹے"جنید" کے ساتویں میں آتے ہی علیحدگی کے معاملت شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ "جنید" اگر وہ لوگ آخری وقت کو اچھے اختتام کرنے کی کوشش کرہے ہوتے ہیں مگر "جنید" ادھر اُدھر جاکر پہلے کی طرح نہیں رہتا خلاوں میں تکتا رہتا اورالگ کمرے میں لیٹے یا ٹی وی دیکھتے سوچتا رہتا ۔ جسکی وجہ سے "جنید" بہت سی رشتوں کے اندر کمیاں دیکھ چکا ہوتا ہے اوراندر سے ایک اُداس طبیعت جبکہ ویسے خوش اخلاق ہوتا ہے لڑکا کینیڈا سے پڑھ کر کراچی آتا ہے مینیجمنٹ میں ماسٹرز کر کے ...ماں باپ میں

بلوچستان آخر مسلہ ہے کیا؟

یوں تو بلوچستان کے بارے میں بات کریں تو فوراََ لوگوں کے ذہن میں آزادی کے متوالے(جو فقط فوج کو وہاں نہیں دیکھتا چاہتے) بلوچستان کے وہ ذہن میں آتے ہیں۔ تو دوسری طرف ریاستی تشدد و دہشتگردی اور دوسری طرف ناراض بلوچ یا علیحدگی پسندوں کی دہشتگردی، مگر کیا یہ سب اتنا آسان ہے کہ چند جملوں سے اس بات کا تصفیہ کرلیا جائے اور کہ دیا جائے کہ بلوچ سردار ذمہ دار ہیں اور ریاست؟کیا صرف بلوچستان میں یہ دو ہی طرز ہیں کیا تیسرا بلوچ وہ نہیں جو فقط امن چاہتا ہے کہ وہ جی سکے اور بہتر زندگی کے مواقع اور بہترین شہری سہولیات سے لُطف اندوز ہوسکے۔ یوں تو بلوچستان پر بات کرتے ہوئے سب کے پر جلتے ہیں کہ فرشتے وہاں موجود ہیں میڈیا وہاں چند جگہوں سے آگے نہیں جا سکتا سب خبریں ایف سی، رینجرز یا پاک فوج کی جانب سے میسر ہوتی ہیں۔اُسکے سوا کوئی ذریعہ نہیں اور میڈیا آنکھ بند کر کے چلانے پر گامز ن ہے۔ بلوچستان کی بات کریں تو ستر سالہ ریاستی جبر ایک طرف تو دوسری طرف بلوچ سرداروں کی ہٹ دھرمیاں بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں کیونکہ ریاست نے بلوچستان کو اپنے اندر شامل کیا تھا اس لحاظ سے رریاست کو اپنا عمل دخل کرکے وہاں ترقی کے

"بلا عنوان "

جب الفاظ نہ ہوں کہنے کو  جب کوئی جگہ نہ ہو ٹہر جانے کو بس سفر  میں تن تنہاہو جانے کو  کوئی سایہ بھی نہ ہو بیٹھ جانے کو  اور وحشتوں کو بڑھ جانے دو  پھر زندگی کسی شام ڈھل جانے کو  اورکوئی بھی نہ ہو گلے لگانے کو  پھر کیوں نہ جی چاہے مرجانے کو  تحریر : محسن علی

بم دھماکوں پر ایک نظم

بم دھماکوں پر ایک نظم لفظ نہیں پاس اب احساس بھی نہیں باتیں ہیں کہنے کو بہت ہزار مگر اب بات پھر بھی کچھ کہنے کوہے نہیں لاشیں،جنازے اور یہ دھماکے ہیں جی تو کرتا ہے پکڑلوں تم لوگ کے گریباں مگر کیا کروں،میں اہل قلم ہوں کوئی تشدد پسند تو تم سا نہیں تم حاکم، تم غاصب،تم اہل عقل کُل یہ معصوم جنازے،یہ سوال کچھ بھی نہیں تم اور اہل ِڈی ایچ اے رہے خوشحال یہ عوام کیڑے مکوڑے، اور کچھ بھی نہیں کراچی،لاہور،پشاور،کوئیٹہ،یا قبائل یہ سب فقط ہیں شہیدہونے کو مگر میرے یہ محافظ کے سالار یہ اہل زبان ہیں فقط،اور کچھ بھی نہیں جنازے میرے لوگ اٹھاتے ہیں روز تم کو ہو غور وفگر کا شوق تو یہ چند شرپسند تمھارے آگے پھر کچھ بھی نہیں کبھی ڈالر،کبھی ریال تو سی پیک مگر ان انسانوں کی جانیں تمھارے لئے کچھ بھی تو نہیں سوال اٹھاؤں گا تو مارا جاؤنگا میں تمھارے اگر عقیدے پر نہیں تو میں کچھ بھی تو نہیں آگ لگادوں میں الفاظ سے اگر مگر تم پر اثر کیا ہوگا بھلا کچھ بھی تو نہیں تحریر:محسن علی

محبت اور فلسفہ محبت ؟

محبت اور فلسفہ محبت ؟ محبت یوں تو کہنے کو فقط الفاظ ہیں مگر اس کے معنی کیا ہیں ؟ کیا یہ جذبہ وجود رکھتاہے ؟ کیا اس کو ہم ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ آج کا دور ثابت کرنے کا دور ہے عقلی دلیل سے ک،یا لوگ محبت میں مر کر اس کو ثابت کرسکے یا محبت فقط ایک خوبصور لفظ ہے اور کہیں وجود نہیں رکھتا. میں کہوں گا محبت کائنات کی بنیاد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں سب چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں، اس جُڑے رہنے کا نام محبت ہے جس کی وجہ سے کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اسی کی وجہ سے اس کے سب رنگ اونچائیاں گہرائیاں زمین کا ٹھہراؤ سب کے میل جول سے کائنات ہے . اگر اب اگر اس لفظ محبت کو انسانی جذبات کے سانچے میں رکھ کر جانچیں تو دیکھیں کہ جب ماں بچے کو گود میں لیتی ہےاپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے،اسی طرح دیگر لوگ اسے اپنی گود میں لے کر اپنا احساس دلاتے ہیں ،جبکہ اجنبی لمس پاتے ہی بچہ رونے لگتا ہے۔یعنی اپنائیت کا احساس محبت ہے . اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک جنس کا دوسری جنس کے احساس کو قبول کرنے کا نام محبت ہے . دیکھا جائے تو پھول کا ٹہنی کانٹوں و پتوں کے درمیان کھلنا یعنی سب کی محبت

احساس ...!

!احساس۔۔۔ احساس یہ لفظ جتنا گزشتہ دس سالوں میں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھا ہے اتنا احساس لوگوں میں جاگا نہیں ہے وجہ کیا ہے ایسا کیونکر ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سی بڑی بڑی باتوں کا احساس کرکے سمجھتے ہیں ہم حساس ہیں اور احساس کرنا جان گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان بڑی باتوں پر احساس دکھلادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے فلاحی اداروں میں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ان کام کرنے والوں میں احساس ہوتا ہے مگر ان ہی لوگوں کا برتاؤ اپنے ہی لوگوں سے بے حس طرز کا ہوتا ہے ۔یہی حال معاشرے کے تمام تر انسانوں کا ہے ایک طرف حکومت کو گالیاں دے کر لوگ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خود اپنے رویوں اور لفظوں اور لہجوں پر غور نہیں کرتے کیا آپ کسی کو گالی دے کر احساس دلاسکتے ہیں ؟ یہ آپ اُس کی تذلیل کریں گے یا اس کو کچھ سمجھائیں گے ؟ کیا غصے کی حالت میں انسان سمجھ سکتا ہے ؟کیا ضروری ہے فقط دوسروں کو احساس دلایا جائے اور اپنا احساس نہیں دیکھا جائے جس طرح دوسروں سے مخاطب ہوتے کیا آپ سے اس طرح کوئی مخاطب ہو تو آپ کو اچھا لگے گا ؟ دوستی میں یہ سب چلتا ہے کیوں دوست بے حس ہوتے ہیں؟ گھر می