Posts

Showing posts from June, 2016

کراچی !

کراچی    کی معیشت کی بہتری کی بہت بات کی جاتی ہے مگر اس ماہ رمضان طارق روڈ ,صدر اور کریم آباد میں افطار کے بعد بھی دکاندار مکھیاں مارتے نظر آئے, کریم آباد جہاں لڑکپن میں آپ دھکے سے اندر جاتے تھے اور دھکے سے باہر آتے تھے عید کے دنوں میں وہاں دکانیں بند اور اکا دکا خریدار مارکیٹ میں دکھائی دئے جبکہ طارق روڈ کی صورت حال یوں تھی ہر چوتھا دکاندار آپ کو ایسے دیکھتا کہ آپ اسکے خریدار بن جائیں گاڑیوں کا رش تو خوب مگر دکاندار دکانیں خالی بس ڈولمین مال اور گلیمر ون  میں کچھ عوام تھی جبکہ صدر عام دنوں سے کم رش کا منظر پیش کر رہا ہے افطار کے بعد کراچی کی تین بڑی مارکیٹوں کا حال گیارویں سے بیسویں روزے تک کی اب جو لوگ کراچی میں امن کی صورت حال کی بہتری اور کراچی کی معیشت مستحکم ہوئی ہے تین چار سال میں اچھی ہوئی ہے ان سے گزارش ہے ٹی وی سے نکل کر یہ تینوں مارکیٹیں تیسویں روزے کو بھی مکمل بھری نہیں مل سکیں گی کیونکہ کراچی کی عوام کا پیسہ پانی خریدنے میں خرچ ہورہا ہے یا پھر جنریٹر اور یو پی ایس لگوا کر ماہانہ ہزار روپے بل ادا کرنےکی صورت میں کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا میری نظر میں جو کراچی شہر کی

"حقیقت زندگی کے رنگ" #21

میں پیدائشی طور پر سننی راس العقیدہ پیدا ہوا تھا مگر آج سے پندرہ سال پہلے اہل تشیعہ ہوا بس کچھ چیزوں سے متاثر ہوکر اور پڑھ کر پھر ہمیشہ سے ایک بات پریشان کرتی تھی کہ میں تعلیم میں کم اور کوئی ہنر یا صلاحیت کیو نہیں پھر یہ ایک لائن نے اثر ڈالا "علی کے گن جو گاٰئگا وہ کمال فن پائگا" اس کے بعد لکھنے لگا اور آج میں کل سے بہتر لکھ سکتا ہوں. تحریر:محسن علی

"فرق"

تمھارے بغیر فرق پڑتا ہے دل لرزتا ہے تمھارے بغیر کچھ بھی کرنے کا دل کہاں کرتا ہے تم تو چلے گئے بن بتائے مگر  تم کیا جانو دن کیسے کٹتا ہے جب روز دن ڈھلتا ہے ایک بوجھ سینے میں بڑھتا ہے آنکھ کھلتی ہے صبح کو تو تیرا چہرا دیکھنےکو دل کرتا ہے خیالوں و تصور میں مسلسل بس تیرا ہی وجود دکھتا ہے کیسے بتائیں تم کو تمھاربنا کیسے ہر ہل گزرتا ہے لوٹ آؤ بھی اب تم یہ دل تیری راہ تکتا ہے بہت تھک چکا ہوں میں اپنے ہی وجود سے میں تیری بانہوں میں میں گرنے کا دل کرتا ہے تحریر: محسن علی

"ضروری تو نہیں "

جو زندہ ہو ضروری تو نہیں  وہ جی بھی رہا ہو ... اور جو جی رہا ہو  وہ زندہ بھی ہو یہ بھی ضروری نہیں قبرستان ہر دوسرے شخص کے دل میں ہے کوئی قبروں کی زیارت کرے روز یہ  ضروری تو نہیں , مسکراہٹیں ہو چہرے پر جس کے روشن  اس کا دل بھی روشن ہو ضروری تو نہیں , روئے تو دل لرزادے , مگر دل بھی روئے ضروری تو نہیں ,  ہر بات کو جھوٹ کہ کر رد کردے ,  مگر دل میں سچائی ہو ضروری تو نہیں,  کھائیں ہو زخم دل پر مگر  چہرے پر عیاں ہوں ضروری تو نہیں ,  تم نے جو وعدے کئے تھے مجھ سے , تم انکو نبھاؤ ضروری تو نہیں ,  عشق میں تیرے میں جل جاؤں ضروری تو نہیں ,  تم نہ ملو اور میں مرجاؤں ضروری تو نہیں  کاتب تقدیر ایسا لکھا کیوں نہیں .. تحریر محسن علی

" تھک"

کیوں تھک گئے کیا خود سے چلو پھر بات کرو , مجھ سے   تحریر:محسن علی

"انسان"

میری باتوں کو لوگ کب سمجھیں گے میں جب مر جاؤنگا تو تب سمجھیں گے میں زندہ ہوں تو پوچھتے نہیں سوال بعد میری تحریروں سے سمجھیں گے ابھی سب کو اپنی اناؤں پر ہے ناز  پھر میری تحریروں سے اپنے مطلب کا سمجھیں گے میری باتوںسے لاکھ اختلاف سعی, انسان ہوں کچھ انسان ہی سمجھیں گے تحریر:محسن علی

"پاکستان کی بڑھتی ہوئی تنہائی"

یشیاء میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی ذمہ داری عسکری اور سول حکومت دونوں پر برابری کی ہی ہے تقریبا کیونکی جب کیانی صاحب کے دور میں خارجہ پالیسی سول قیادت کو دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے ہاےھ میں نہیں لی , دوسرا جب نوز شریف صاحب آئے تو انہوں نے اس وجہ سے یہ منصب خود کے پاس رکھ لیا کہ عسکری قیادت پر انہیں یقین نہیں کہیں امریکہ کی حمایت کم ہوگئ تو استعفی نہ دینا پڑجائے دوسرے پاکستان نے افغانستان سے جو تجارتی معاہدہ کیا تھا زرداری دور میں اس میں کوئ پیش رفت نہیں دیکھی گ ئ اور پاکستان کے مقابلے میں انڈیا نے وہاًں یونیورسٹی کے   یونیورسٹی کے قیام سے وہاں کی عوام اور حکومت کےلئے جگہ پیداکی جبکہ پاکستان کا اسسطرح کا کوئ خاطر خواہ منصوبہ سن نے کع نہیں ملا اور انڈیا امریکہ کےبعد دوسرا بڑا انویسٹر ہے افغانستان میں اسلئے کہا جاسکتا ہے خارجی امور میں نواز شریف اور اندرونی سیاست میں نواز شریف کی سوچھ و سمجھ میں ابتک تبدیلی نہیں آئی اگر کوئی بڑا اتحاد سامنے آگیا جو کہ پاکستان کی سیا ست میں کسی بھی وقت کچھ بھی عین ممکن ہے کیونکہ سیکولر قوتوں کے ساتھ مذہبی سیاسہ جماعتوں کا اتحاد دیکھنے می

"بھول"

وحشتیں حد سے بڑھ جائیں تو اکثر خود سے روٹھ جاتا ہوں لوگ کرتے ہیں ,میرے درد کی بات میں اپنے درد بھول جاتا ہوں جب بھی تیری گلی سے گزروں اپنے دیوار و در بھول جاتا ہوں عجب طلسم ہے تیری یادوں کا اپنی روح کے زخم بھول جاتا ہوں اکثر ہاتھ اٹھاؤں جو دعاؤں کے لئے تیرے نام کے سوا سب بھول جاتا ہوں تحریر: محسن علی

"حقیقت زندگی کے رنگ" # 20 " ہلکا پھلکا تشدد"

ایک مجھ جیسے بندے پر ہلکا پھلکا تشدد یہ کیا جاسکتا ہےاس کے سالن میں مرچ سامنے رکھ دی جائے تاکہ وہ مزید کم کھائے ڈر کے مارے .. (تحریر محسن علی)

"حقیقت زندگی کے رنگ" # 19 "محبت کی وجہ"

دل سے نکلی بات محبت کی وجہ بنتی ہے , میرے لئے کیونکہ جو عشق میں نے کم عمری میں کیا مجھے بس اسکا انداز گفتگو اور عزت سے بات کرنا انتہائی بچپنے میں گرویدہ کرگیا تھا وہ جدا تو ہوگیا مجھ سے مگر محسوس اکثر ہووتا ہے ..اسی طرح ایک دوست جو بہت کم عرصے میں عبادت کی طرح ہوگیا میں نے اس اور وہ بھی اسکا انداز بیا تھا اور سن نا انہماک سے ,اب وہ میرے وجود کا حصہ نہیں بلکہ میری ذات کا صدا حصہ رہےگی تومیری نظر میں محبت کا پہلو یہ ہے , محبت کے تین درجے ہیں پیار محبت اور عشق پیار اتنی تکلیف نہیں دیتا اور زیادہ تر لوگوں کو ایک عمر بعد چہرہ یا نام یاد بھی نہیں رہ پاتا , جبکہ محبت پھر یاد رہ جاتی ہے مگر پوری طرح آپکو نہیں گھلاتی اگر نہ ملے جبکہ عشق آپ کے ذہن اور دل کو گھری چوٹ دیتا ہے کہ آپ سنبھل نہیں پاتے اور تنہائ کی انتہا وحشتیں بڑھادیتی ہیں آپ یا تو ان وحشتوں سے بھاگتے ہیں یا کسی کو وحشتوں کا ساتھی بنالیتے ہیں . تحریر: محسن علی "حقیقت زندگی کے رنگ" # 19

"پیاس"

پیاس ہے کے بجھتی نہیں شام ہے کہ ڈھلتی ہی نہیں تیری یادیں اتنی گہری ہیں اک عمر ہوئی مگر ڈھلتی ہی نہیں تحریر: محسن علی

" نشہ"

شرابیں بہت سی پی نشہ ان میں کم لگا .... تیرے رخساروں سے جو پی تو جینے کا من کرنے لگا. تحریر : محسن علی

"کال"

ساری شام فون پکڑے  کرتے رہے ہم انتظار   تم نے جو ایک بار کہا تھا   کروگے کال ہم کو یار   شام بیتی ,رات بیتی مگر ہاتھوں میں اب فون اب تک یار  جانتے تھے تمھاری یہی جھوٹی باتیں  مگر پھر بھی کرہے ا نتظار  تیری محبت جھوٹی ہوگی پر  میری چاہ سچی ہے میرے یار تحریر: محسن علی 

"لوٹ آؤ .."

لوٹ آؤ ....! کہاں گئے تم .. لوٹ آؤ نہ کہ ادھورے ہیں ہم لوٹ آؤ کہ ..میری  وحشتوں کو نا بڑھاؤ تم لوٹ آؤ نا میری نا مکمل عبادت ہو تم لوٹآؤ نا ...خواب کردو پورے تم... لوٹ آؤ نا زندگی کا چین ہو تم.. لوٹ آؤ نا بہت بکھریں ہیں ٹوٹیں ایک دوسرے میں ہم اور تم... تحریر: محسن علی .

9/11 اثرات

اس واقعے سے پہلے کا پاکستان جہاں کچھ تعداد می لڑکیاں اور عورتیں شہروں میں کم تھیں جو عبایا تو نہیں برقعہ لیتی تھیں میری اپنی کلاس کی اور اسکول کی چھٹی کلاس تک بھی اسکرٹ پہن لیا کرتی تھیں جبکہ مجھ سے ایک کلاس سینئر ایک لڑکی نے تو آٹھویں جماعت تک اسکرٹ پہنا لیگین کے ساتھ نہ کوئ پرواہ نہ کوئی اسکو ایسے گھورتا تھا.ہم پارک میں نویں دسویں تک جاکر اسکول کی سینئر لڑکیوں کے ساتھ آراام سے عزت سے کھیل .کھو کھو وغیرہ کھیل لیا کرتے تھے پھر جب میٹرک کے سپلی لگے تو اس وقت  اسکول کی لڑکیو ں کا آنا بند ہوگیا عبایا اسلامی لباس نہیں جیسے شلوار کمیز اسلامی لباس نہیں حتیٰ کہ اسلام میں صرف حجاب کرنے کا حکم ہے نقاب کا نہیں لیکن کیا کریں معاشرے میں برے کام کرنے ہوں تو اسکا استعمال ضروری ہوجاتا ہے مثلاً بچی کے ساتھ ڈیٹ پر جانا ہو تو بچی عبایا پہن کے آتی، زنانہ محفل میں مردوں کی دلچسپی ہو تو مرد پہن کے محفل میں حصّہ لیتے اور جب پھٹنے والی ہو تو مولانا عبدالعزیز جیسے لوگ عبایا پہن کر کٹنے کی کرتے ہیں... یہ ۲۰۰۲کی بات ہے اور جنا ب پھر یہ جو افسوس نا ک واقعہ ہوا تو لوگوں نے اسامہ نام ایسے رکھنا شروع کردیا 

"ہمکلام"

جب اپنوں سے بھی حال پوچھنا محال ہوجائے ایسے میں اپنی ہی وحشتوں سے ہمکلام ہوا جائے (تحریر: محسن علی)

" اداسی"

نہ جانے یہ اداسی کیوں  پھر   بھی روح پیا سی کیوں   مگر غم سب ہی کے سا نجھے ہیں پر اس جگ میں وہ لوگ کہاں جو ہر دکھ بانٹیں ہیں .تن بھرا یہاں سب ہی کے روحیں سب ہی پیاسی ہیں وجہ پھر تم کیو ںپوچھتے ہو .پھر یہ اداسی کیو ں (تحریر: محسن علی )

"کانٹوں"

کانٹوں پر چلنے والے دے دے کوئی  زندگی ہے میری گلاب کا بستر نہیں کوئی (تحریر: محسن علی )

"وحشتیں"

آپ بھی رویا کرینگےروز پہلو بدل کر اس طرح جب وحشتیں ستائنگی   آپ کو  میری طرح  (تحریر: محسن علی )

" سوچ" Shair

میں یہ سوچ کے روز مرجاتا ہوں کہ جی رہا ہوں تیرے بغیر وگرنہ مرنا اگر ایک بار ہونا تو جینا کتنا آسان ہوتا (تحریر: محسن علی )

"ویران"

سنو ! وحشتیں بے لگام ہوجاتیں ہیں تو وہ تجھ سے ہمکلام ہوجاتی ہیں مگر آج تم نہیں ہو تو وہ میری ہی تنہایوں کا قتل عام کرتی ہیں  یہ جو تم چلے جاتے ہو نہ چھوڑ کر تمھیں کیا خبر یہ کس قدر رات بھر پریشان کرتی ہیں جانتا ہوں تمھاری وحشتیں مجھ سے زیادہ تمہیں حلقان کرتی ہیں یوں چھوڑ جاتے ہو تم ہجر کی رُت میں تنہا کبھی سینے سے لگو تو جان سکو کہ روح کو کس طرح ویران کرتی ہیں . (تحریر: محسن علی )

"میدان"

نہ جانے کتنی قبریں اور بنیں گی اس دل کے قبرستان میں  دل ابتک آباد بھی نہ ہو مقتل بچھ گئے اس میدان میں ہندو,مسلم سکھ, عیسائی سب نے مارے اس دل کے مارے اس دلِویران میں سارے مذہب و مسلک مل گئے نہ ملے انسان ہمیں  تیزاب ڈالو آگ لگادو گولی مارو چپ رہو تم سب اپنے مکان میں کل کو جب لاش اٹھاؤ , غم اٹھاؤ تو پھر شکوہ نہ کرو اس جہاں سے بندوق گراؤ ,قلم اٹھاؤ ,وقت ہے ابھی نکلو تم میدان میں .. تحریر : محسن علی نوٹ: احمدی ڈاکٹر کے قتل پر ..جو چار جون کو قتل کردئے گئے لاہور میں ...

"وحشتوں

کتنا اذیت دیتا ہے .. نا  اپنی وحشتوں سے ہمکلام ہونا خود کو آغوش میں اسکی کھو دینا   ساتھ ہوتے ہوئے بھی منزل کو جدا کرلینا تحریر : محسن علی

"حال دل"

حال دل اب اپنا پوچھتا نہیں ہے کوئی  ہماری جب سے دکھوں سے دوستی ہوئی تحریر : محسن علی 

"شرائط"

تمھاری شرائط ..ہمیں دور کردینگی محبت میں کبھی کوئی دستاویزات نہیں ہوتے تحریر : محسن علی 

"چاہ"

اچھا تو نہیں لگتا بار بار کہنا مگر پھر بھی .. نہ جانے کیوں لگتا ہے تم ہی ہو وہی ضد نہیں عادت نہہں چاہ ہو میری تحریر : محسن علی 

"آغوش"

تیری آغوش میں رات بھر بیٹھ کر ینگے ہم صدیوں کاسفر لمحوں میں طے کرینگے تحریر : محسن علی 

"منتظر"

" منتظر" تیری آواز کے منتظر  دو گھڑ ی کے منتظر  وحشتوں کے ہمنوا  تیری گفتگو کے منتظر  تیری تصویر دیکھ کر کیوں رہتا ہے دل تیرا منتظر تحریر : محسن علی 

" آدم "

چلئےہم گنہگاروں سے ملئے  پھر کسی سے نئی کوئی خطا کیجئے   فرشتے ہیں چاروں طرف   تھوڑا بنی آدم سے ملئے   رنجشیں عداوتیں بھلا کر ہو سکے   قاتل محسن سے ملئے تحریر محسن علی

"حقیقت زندگی کے رنگ" # 18

پازیب اور پائل کی چھن چھن کچھ بھی ہو دل کی دھڑکن کو ضرور اضطراب کا شکار کرتی ہے جبکہ گجنگروؤں کی کھنکھن ایک طوفان آزادی کی آواز اور سر پرگزتی بجلیوں کو جگادیتی ہیں یا پھر ا نہی بھلادیتی ہیں ..ِ "حقیقت زندگی کے رنگ" (تحریر محسن علی)

"دو منٹ"

  !  سنو   میں بس دو منٹ   تمھارا ہاتھ تھام کر   بس تم کو پڑھنا چاہتا ہوں پھر جواب کچھ بھی ہو   مجھے منظور ہوگا  فقط یہ دو لمحوں کا سفر  مجھے ! کہنے کو ز زندگی کا  کوئی ہمسفر میرا تو رہا ہوگا (تحریر:محسن علی)