Posts

"خوش"

Image
میں اب تنہا ہوں   اور خوش ہوں   ہاں الُجھا ہوں   میں خوش ہوں   تُم ہو مُجھ میں   میں خوش ہوں   نہیں ملنا کسی سے   میں خوش ہوں   تُم نہیں پاس مگر   میں خوش ہوں   نہ ہےکوئی سوال   میں خوش ہوں   نہ دینا کوئی جواب   میں خوش ہوں   یار، دوست کیا احباب   اب پوچھتا نہیں کوئی بھی حال   میں خوش ہوں   تُم ہی ہو ہر خیال   میں خوش ہوں   بس ایک ہی ہے ملال   نہیں ممکن وصل یار   میں خوش ہوں تؐم کرتی ہو بیقرار میں خوش ہوں میرے قلم و الفاظ   میں خوش ہوں   ٹوٹے پھوٹے جذبات   میں خوش ہوں   مرتا ہوں میں   روز ہزار بار   میں خوش ہوں محسن علی

" تنہا"

Image
میں اکیلا بھی ہوں   اور تن تنہا بھی   کمرے میں تنہا ہوں کھانے پر تنہا ہوں   محفل میں تنہا   تصویروں میں بھی   برسات کے دن ہوں   یا کوئی بھی موسم   میں بس تنہا ہوتا ہوں   گرم دن ہوں یا پھر   سردیوں کی چائے   میں تنہا ہی لیتا ہوں   اب کسی رشتے کی کمی   نہیں تنگ کرتی مُجھے   میں تنہا ہوتا ہوں   بس ایک تُمھاری کمی   محسوس ہوتی ہے   مگر میں تنہا ہوتا ہوں   رات اشک میں ڈوبی   اور میں تنہا ہوتا ہوں   ایک تنہائی ہوتی ہے   میں بس تنہا ہوتا ہوں محسن علی

"میرے بعد"

Image
دیکھو میرے بعد  میرا فون نمبر  میرے میسیجز  میری آئی ڈی مٹادینا  میرا خیال تذکرہ  میرا نام سب مٹادینا  میرے کمرے کے کاغذ  میرا قلم اور چائے کی پیالی  سب وہاں سے ہٹادینا  ساتھ الماری میں نیلے کپڑے دیوار پر نیلا رنگ  یہ سب مٹادینا تُم کو نیلا رنگ پسند ہے  اسلئے وہ نیلا ریزر  اور نیلی چادر بچھاتا تھا  وہ بھی ہٹادینا  میری انباکس چیٹ اور  وآٹس ایپ میسیج مٹادینا  بس ۔۔۔ تُم نیلے آسمان کے نیچے  نیلے کپڑے پہنے ۔۔۔ خود کچھ سوچ کر یوہی  پھر تُم مُسکرادینا  اور مُجھے بُھلادینا مُحسن علی

" بے بسی"

Image
کتنا خوشنصیب ہے وہ تُم میسر ہو وہ بھی ڈھلتی شام نہ دفتر نہ لوگ کوئی اپنی بات کرنے کا موقع تمھاری مکمل توجہ تُمھارا ساتھ پھر تُمھارے ساتھ چلنے کو تُمھاری مُسکراہٹ اور تمھاری خوشی اور میرے پاس بس فقط ایک مکمل بے بسی محسن علی

"بلاعنوان"

Image
میں ادھورا ہوں   تُم تیسری جنس کو ادھورا کہتے ہو   میں تنہا ہوں   تُم اکیلے پن کی بات کرتے ہو   میں مُردہ ہوں   تُم مُردوں کو یاد رکھتے ہو   میں محبت ہوں   تُم محبت کی بات کرتے ہو   میں زندوں کا نوحہ ہوں   تُم مُردوں کو روتے ہو   میں زندہ رہنے کی بات کرتا ہوں   تُم زندہ کو مارنے کا کہتے ہو   میں جُرم کو قتل کرنا چاہتا ہوں   تُم مُجرم کو مارنے کا کہتے ہو   میں ادب برائے معاشرے کا قائل ہوں   تُم ادب برائے ادب تک محدود ہو   میں رقص کناں ہوناچاہتا ہوں   تُم موسیقی کو گناہ کہتے ہو   میں زنجیر میں بھی آزادی کہتا ہوں   تُم آزاد ہوکر بھی قیدی ہو   میں انسانوں کی بات کرتا ہوں   تُم مذاہب کے لئے لڑتے ہو   میں محبت و نور کی بات کرتا ہوں تُم کُفر فتوے لگاتے ہو   میں سب تہوار بنانے کا کہتا ہوں   تُم مسلمان ہندو عیسائی تک محدود کرتے ہو   میں رنگ بکھیرنا چاہتا ہوں   تُم ماتم و گریہ کی بات کرتے ہو   میں انسان کی بقاء کی بات کرتا ہوں   تُم شہادت و وطن کی بات کرتے ہو   میں عشق پیار و محبت کہتا ہوں   تُم بس انکے نام لیتے ہو   میں فقط رائے رکھتا ہوں   تُم فیصلے کرتے ہو   میں قندیل و م

"تراش"

Image
آج رات میں پوری چاہ سے  تُمھیں تراشونگا سنگ تراش  کی مانند کسی  تُمھاری زُلف، تُمھارے رُخسار  تُمھارا ہر انگ انگ نکھارونگا  آج تُم کو بالکل ویسا تراشونگا  جیسا خُدا نے تم کو یکتائی سے  تراشہ تھا  میں سب خد و خال تمھارے  گینسووں سوارونگا اور  اُس میں موجود تُمھاری خوشبو  بہانے بہانے سے خود پر لگالونگا  اپنے اشکوں سے میں تُمھاری مُسکراہٹ بنا ڈالونگا  اور پھر تُم کو بالکل ویسے  سجاونگا جیسے تُمھارے  من کی چاہ رہی ہمیشہ  پھر تُمھارے پاووں کو میں  آب زم زم و عرق گلاب سے  دھلا کر اُن کو بوسہ دیکر  تُمھاری آنکھوں کے سب آنسو  اپنی پلکوں پر سجالونگا  آج تُم کو میں کسی دلہن کی مانند  دُلہن سے حسین سجادونگا  آج رات بھر میں تُم کو  تُم کو صبح تک تراشونگا  محسن علی

کراچی لٹریچر فیسٹیول کا احوال "تین روزہ "

تین روزہ حال احوال کراچی لٹریچر فیسٹیول "تین روز"   مُجھے اس فیسٹیول کے آنے کا انتظار رہتا ہے ہمیشہ اب کی بار بھی رہا مگر بس کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر دل نہیں مانا لہذا ارادہ تو کرلیا تھا نہیں جاونگا مگر جمعہ کو آفس سے نکلتے ہوئے اُسکو سوچتے سوچتے بس کو آتا دیکھتے اُس طرف جاتی اُس میں چڑھ گیا ۔کینٹ اسٹیشن پہنچا ہی تھا دل کیا وآپس گھر پلٹ جاوں مگر راستے میں ہی ایک نظم الہام ہوگئی اور پھر سگنل بھی کراس ہوگیا تو سوچا اب چلے جانا چاہئیے خیر سے وہاں پہنچے تو گارڈن میں کُچھ دیر بیٹھ کر بروشر لئے دیکھا تو Universities or Nurseries of Terrorism سیشن کام کا لگا کیونکہ باقی میں رش تھا دو میں اور دیگر کوئی اچھا نہیں لگا وہاں بات تو ہوئی مگر بات برداشت کی ہوئی جب کہ ہمیں معاشرے میں ایک دوسرے کو قبول کرنا سیکھانا چاہئے کافی اچھی گفتگو رہی جس میں ویلنٹائن ڈے کو مذہبی ڈنڈے کیوجہ سے بند کروایا گیا،پھر مشعال ،عاصمہ ، نقیب کے بارے میں گفتگو کی گئی اور والدین و استاتذہ کی ساتھ کہ دُنیا بھر کیا بات ہورہی ہے اور وہ کسطرز پر کام کرہے ساتھ امریکی رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا گیا ک

عاصمہ جہانگیر۔۔۔کیا واقعی مرگئیں؟

Image
عاصمہ جہانگیر۔۔۔کیا واقعی مرگئیں؟ عاصمہ جہانگیرایک انتہائی پُر اسرار شخصیت ہمارے معاشرے کی وہ عورت جنہوں نے ہم جیسے مردوں کو جان دی اور مُردہ سوچ اُنکی موت پر پر اپنی غلاظت سے بعض نہ آسکے۔میں عاصمہ جہانگیرکو پہلی بار جب جانا جب شروع شروع میں مُشرف نے ایل ایف اور کے ذریعے طاقت حاصل کی۔مجھے اُس وقت انکی سوچ سے ایک عجیب اکتاہٹ ہوتی کہ یہ کس طرح کیسے ممکن ہے کیا کہ رہیں ہیں۔ایسا کیوں کہ رہیں ہیں؟مجھے شروع میں اختلاف رہا مگر وقت کے ساتھ اُنکی باتیں اثر کرتیں رہیں پھر جب سوشل میڈیا پر پہلی بار انکے خلاف مہم چلی تو میں اُس وقت تک کااُنکا حامی ہوچکا تھا۔ میری تکرار رہی اپنے آفس ورکرز کے ساتھ اور گھر کے لوگوں کے ساتھ مگر پھر رفتہ رفتہ میں بھی اُنکو دیکھا دیکھی سڑکوں پر جا نکلا دوہزار تیرا میں اور پھر وہ میرے لئے ایک استاد بن گئیں۔میں جب بھی انہیں دیکھا تو ایک عجیب سی شخصیت دکھیں۔ مگر حیرانی ہوئی جب عافیہ صدیقہ اور پھر گزشتہ سالوں میں زید حامد کی جب بات کی تو دل کیا اُن سے ملک کر اُنکو سلام کروں مگر ممکن نہ ہوسکا۔ عاصمہ جہانگیر ایک زمانہ ساز شخصیت رہیں اور زمانے کبھی مرا نہیں کرتے۔اگر

مُکا، متحد ہوجاو اور 33 ارب کی کہانی ۔۔محسن علی

Image
بات مُکے سے شروع کرنا چاہوں گا جب پاکستان بنا تو سب پاکستانی ہی تھے پہلے مگر جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اور اُسی تقریر کا مُکا مُکا چوک پر نصب تھا ، لیاقت علی کے دور میں  قرارداد مقاصد پیش ہوئی اور یہ طے ہوا  کہ آئین اسلامی اصولوں کے تحت ہوگا مگر اُن کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خان آئے چھپن کا آئین بنا ساتھ تفریق کی پہلی لکیر محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا  کر رکھی گئی اور پھر باسٹھ کا سیکولر آئین بنا، اُن ہی کے دور میں یحیی خان کی رنگینی نے مزید ہوا دی اور بنگلہ دیش اکثریت نے اقلیت کو چھوڑا اس تفریق کی لکیر  کی پابندی جمہوری دور میں ہوئی اور بلوچ حکومت پر شب خون مارا گیا۔ جناب آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے جی ایم سید و باچا خان  باقی پاکستانیوں کی نظر میں غدار ٹھہرے  اور اس تفریق کا رنگ  مزید  گہرا کردیا۔ پھر آپ کے ہی ہلکے آشیرواد سے تفریق نے زور پکڑا اور مذہبی جنونیت بڑھی ،پھر اُس کو ختم کرنے  کے لیے آپ نے بلوچستان کے رستے متحدہ کو اسلحہ فراہم کرکے مزید تقویت دی۔ ساتھ ایک فرقے کو ریاستی سرپرستی میں پالا اور مسلط کیا، بات یہیں  ختم نہ ہوئی۔ آپ کی پالیسی کا نتیجہ جاگ پنجابی جاگ نکلا ،

The boy in the Jungle

The boy in the Jungle Once upon a time, their lived a man, on a deserted island.  He only wore a beautiful red hat and use to cover himself with plants or if he found any type of animal skin. He drank water from the sea and ate fish if he felt hungry. He had a hut made up of coconut tree.  He had arrow from which he use to hunt fishes. One day he went to deeper in the island he saw a beautiful jungle as he went inside he felt hungry he walked and walked.  He was stared everything was new for him. After few minutes he saw a Rhinoceros walking near to him . he very scared moving backward he had an idea. He just threw his arrow high in the sky. The Rhinoceros thought that now that man could kill him  the Rhino came fast running to him with his head down  and in 2-3 seconds arrow landed into Rhinoceros neck soon he died.  Now this young man ate Rhino. He made his hut in the middle of island so he could also drink water and he hunt new animals every day. Written by  "A Ten Ye

ّّّؓؓؓآرمی چیف صاحب سے چند سوالات۔۔۔

Image
سرکارآپ نے بتایا 161مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی تو 56کو ہی اب تک کیوں دی گئی۔۔ باقی دہشتگردوں کو بھی سزا کے بعد تیزی سے سزا دی جاسکتی تھی یا مدت ختم ہونے کا انتظارہے؟ سرکار 28مارچ سے اب تک 105دن سے زائد ہوتے ہیں روز ایک کو بھی پھانسی دیتے تو سب کو سزائے موت دے چکے ہوتے سمجھنے سے قاصر ہوں میں۔۔ سر کار 160میں سے 33پر فیصلہ ہوا تو پھر فوجی عدالتیں بھی طویل ہونے لگیں کسی دور میں Kangroo Courtsکی طرح دوڑ لگاتی تھیں سترہ ایجینساں مجرم پکڑے جانے کے بعد اگر ثبوت نہ لاسکیں تو کیا سمجھوں سرکار؟ سرکار آپ نے بتایا خیبر و فاٹا میں ملا کر 1249کومبنگ اور انٹیلی جینس بیس آپریشن کئے مجھے یقین ہے آپ لوگوں نے کم از کم 622لوگ گرفتار کئے ہونگیں تو کیا ان کے مقدمات بھی قائم کئے کہیں پیش کیا انہیں یا ان آپریشن سے کیا حاصل ہوا اب تک؟ سرکار پنجاب میں 13011آپریشن میں کم از کم 605لوگ آپ نے پکڑیں ہونگیں کیا سب دہشتگرد تھے یا دہشتگردوں نے جبری ان کو استعمال کیا  یا پنجاب کے آپریشن اور خیبروفاٹا کے آپریشنز سے کیا نئی بات معلوم ہوئی اداروں کو کن نئی تنظیموں کے نام سامنے آئے؟ بلوچستان میں 1410آپریشن

#FindRaza

Image

کہانی قسط نمبر دس

کہانی قسط نمبر دس "سارہ کے گزشتہ بوئائے فرینڈ کی انتری عاطف کے بڑے بال اسمارٹ سا چشمہ لگا ہوا ۔۔۔ لمبے قد کا ، گرے ٹی شرٹ اور جینز میں اوپر کورٹ بلیک سردیوں کے دن " سارہ ایک فلیٹ میں گُھستی ہے چابی سے دروازہ کھول کر اور پرس سے فون نکال کر کال کرتی ہے سارہ خوش بھی ہوتی ہے چہرے سے مگر کچھ اکیلا پن بھی ہوتا ہے کیونکہ اُسکا جو ایک بوائے فرینڈ ہوتا ہے اُس سے وہ ملنے آتی ہے جو ایک ڈیڑھ سال میں اُسکو اُسکی بچی دے دیگا اور دونوں میں ہمیشہ کے لئے علیحدگی ہوجائیگی صرف دوست رہ جائینگے ۔ سارہ اکیلی بیٹھی ہے وہ سوچتی ہے سوال اٹھتا ہے اُسکے اندر سے سارہ کیا تم عاطف کو واقعی چھوڑ دوگی سارہ با آواز کہتی ہے خود سے کہتی ہے ہاں میں فیصلہ کرچُکی سارہ تو اتنآ قریب کیوں گئیں تھیں اُسکے سارہ با آواز کہتی ہے میں نویں میں تھیں مجھے زندگی کا نہیں معلوم تھا اور انسان کی جنسی ضرورت بھی ہوتی ہے شائد جنسی ضرورت کو میں اور وہ محبت سمجھ بیٹھے تھے تو زارا پیدا ہوگئی ۔ سارہ کیا تم آج واقعی آخری بار مل رہی ہو کیا تم پھر ٹوٹ کر نہیں بکھروگی آج تمھارے جذبات و احساسات ایک بے چینی سے کیوں ہے تم میں ؟ سارہ

کہانی قسط نمبر نو

قسط نمبر نو سارہ گھر پر بیٹھی کمرے میں ٹیبل پر اپنے ، اسکی بہن شائستہ گھر آئی ہوئی رکنے کے لئے ساتھ بیٹھی شاءستہ ٹی وی دیکھ رہی ہوتی ٹی بند کرکے وہ سارہ سے مخاطب ہوتی ہے ۔ شائستہ : سارہ یار ایک بات سوچ رہی تھی میں سارہ : شائستہ تم اور سوچتی ہو اس کا مجھے کبھی گمان بھی نہیں ہوئے شائستہ : میں مذاق نہیں کرہے یار ۔۔۔۔ سارہ: بچپن سے آج تک کبھی تم نے کوئی بات کہی نہیں اس طرح سے کہ تم کچھ سوچ رہی ہو اسلئے میں نے کہا شائستہ : بات سنو گی یا کام میں مصروف ہو تو ٹال رہیں سارہ : ارے یار میری جان کہو میں مصروف ہوں مگر تم سے بڑھ کر نہیں تم کہو کیا سوچ رہی تھیں شائستہ : میں سوچ رہی تھی آپ منگنی یا شادی وغیرہ کرلیں سارہ : شائستہ تم جانتی ہو میں کسی دوسرے کی رائے سے کبھی کچھ نہیں کیا جب تک میرا دل نہیں ہوا تم سب لوگ مجھ سے یہ بات کہنا چھوڑدوگے میں خود کچھ کرلونگی ۔ شائستہ :سارہ تم تو برا ہی مان گئیں یار ۔۔ سارہ: دیکھو یار میں پریکٹیکل قسم کی لڑکی ہوں شروع سے اسلئے تمھاری شادی کو سال ہونے آیا میں نے تم سے نہیں کہا یار بچہ کب آرہا ہے ہنی مون پر کیا کیا؟ کیونکہ میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں جاتی اسلئے

کہانی قسط نمبر آٹھ

آٹھویں قسط سارہ : آفس میں کام اپنی ٹیم کو دے کر ، جنید کو ایکسٹینشن کرتی ہے کچھ بات کرنی ہے فری ہو تو آوں ۔ جنید: دوسری طرف ہاں آجاو کام آج کم ہے میرے پاس کچھ سارہ: کمرے میں داخل ہوتی ہے جنید مجھے کچھ دنوں کی چھٹیاں چاہئے جنید: کیا شادی کے لئے یا کس وجہ سے ایپلیکشن دے دو میں اپروو کردونگا سارہ: ہاں بس دس بارہ دن کی چاہئے جنید : ایسا کرو آج تو منگل ہے اگلے منگل سے لے لو ۔ سارہ: کچھ سوچتے ہوئے نہیں مجھے اس مہینے نہیں اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی چاہئے ۔ جنید: کلینڈر پر نظر ڈالتے ہوئے اچھا پر سنو پہلے پیر آجانا اگلا مہینہ پیر سے شروع ہے ۔ سارہ: اچھا چلو ٹھیک ہے ۔ جنید سارہ کے جانے کے بعد توقیر و بابر کو بلاتا ہے کمرے میں اور ساتھ لبنی بھی آجاتی ہے جبکہ سارہ ۔۔آفس سے باہر نکل جاتی ہے ۔ جنید : یار دیکھو سارہ اگلے ماہ چھٹیوں پر جائیگی تو ہم کو سب کچھ دیکھنا ہوگا تم سب لوگ اس سے تھوڑا کام لے لو کیونکہ اس کے پاس نئی ٹیم ہے بالکل فریش ہے ابھی سال ہونے کو ہے وہ لوگ اتنی اچھی طرح کام سنبھال نہ پائیں ۔ سارہ: اتنے میں ایک دم سے اندر آتی ہے روم میں ارے تم سب لوگ یہاں کیا میٹنگ چل رہی ہے میرے پیچھے

کہانی قسط نمبر سات

کہانی قسط نمبر سات کہانی کا اگلا پڑاو  سارہ کال کیوجہ سے پریشان رہنے لگتی ہے اسکی آنکھیں کوئی نہ پڑھ لے اسلئے کالہ چشمہ بہانے سے لگائے رکھتی ہے ساتھ آفس میں سب سے زیادہ خود کو کام میں مصروف رکھتی ہے جب کہ بہن کی شادی کی دعوتیں چل رہی ہوتی ہیں ، وہ کم گو ہوجاتی ہے مگر بس اپنی آفس کی مارکیٹنگ ٹیم کے ساتھ ہفتے میں دو تین باہر ڈنر کرنے لگتی ہے ۔ جبکہ  لبنی، توقیر، یاسر ،شائستہ اور جنید ایک دوسرے سے مزید قریب ہوجاتے ہیں جبکہ سارہ ان کی باتوں پر ہاں ناں سا جواب یا وآٹس ایپ میسیج پر جواب ہی دیتی بات نہیں کرتی ۔۔۔۔ سارہ : آفس میں بیٹھی ہوتی ہے آفس کی چھٹی کا وقت کال آتی ہے سارہ کال دیکھتی ہے کال : شاہ صاحب کی سارہ: سلام شاہ انکل کیسے ہیں سب خیریت شاہ: جی سب ٹھیک بیٹا تم ملنے نہیں آئیں سارہ: انکل آج ہی تھوڑا فری ہوئی ہوں شاہ: تو بیٹا آجاو شام چائے یا ڈنر ساتھ کرتے ہیں سارہ : اچھا انکل میں آجاونگی شکریہ بلانے کا شاہ: اچھا بِیٹا بائی سارہ : ٹیک کئیر بائی ۔ جنید فون رکھتے ہی سارہ کے سامنے آجاتا ہے سارہ: جنید کچھ کہنا ہے ؟ جنید: ہاں پوچھنا تھا ہماری دوست سارہ کہاں ہوتی ہے ؟ سارہ: یا

کہانی قسط نمبر چھ

چھٹی قسط کہانی کو آگے لے کر چلتے ہیں سارہ فون کی گھنٹی بجنے پر نمبر دیکھ کر الگ جگہ جاکر بات کرتی ہے اور کچھ پریشان ہوجاتی ہے ۔ سارہ پریشانیوں کو چھپانا اچھے سے جانتی ہے وہ نارمل ہوکر سب کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے ۔۔ اور سب کو چائے پانی کو پوچھتی ہے ۔ ادھر سارہ کے کزنز بھی آجاتے ہیں ۔ ماجد ،اعظم و بابر ساتھ آرہے ہوتے ہیں جب کہ سامنے خالا کی بیٹیان ثناء و عظمی اور احسن ساتھ آتے ہیں سارہ ایک دم درمیان میں آکر تعارف کرواتی ہے ان کا آپس میں اور ساتھ لے جاکر اپنے دوستوں جنید، لبنی ، توقیر سے بھی ملواتی ہے ۔ سارہ اندر ہی اندر پریشان ہوتی ہے ۔ اتنے میں سامنے سے توقیر کے والد بھی آجاتے ہیں ۔ توقیر کے والد بچوں سے سلام دعا کرنے کے بعد سارہ کو بلاتے ہیں شاہ صاحب: سارہ بیٹا آج کل کیا ہورہا ہے جب توقیر نے بتایا تم اسکی دوست ہو ۔ سارہ: جی ابھی دو تین ماہ ہوئے دوستی کو ہماری زیادہ عرصہ نہیں۔ شاہ صاحب: بیٹا میں دیکھ رہا تھا تم کچھ پریشان ہو سارہ : نہیں انکل باکل نہیں مُسکراتے ہوئے شاہ صاحب: دیکھو بیٹا تم کو کوئی مسلہ ہو کبھی بھی تو مجھے میسیج یا کال کرلینا یہ لو میرا نمبر اور ہاں مجھ سے اکیلے میں بات

کہانی قسط نمبر پانچ

پانچویں قسط کہانی آگے بڑھتی ہوئی ۔ شائستہ کے والد و والدہ بات کرتے ہیں شائستہ کی رضامندی پوچھ کر ۔۔ اور یاسر سے کے والد سے کہتے ہیں بچے آپس میں مل کر جو فیصلہ کریں منظور جب شائستہ کو یاسر کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو شائستہ دنگ رہ جاتی ہے یہ تو یاسر ہیں سارہ کے دوست کے دوست ۔۔ شائستہ سارہ کو تصویر دکھاتی ہے ۔ سارہ : حیرانگی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں ۔۔۔ شائستہ : کیا ہوا سارہ اچھا نہیں کیا یہ ؟ سارہ: ارے نہیں جنید کا دوست ہے فائنانس و اکاونٹس دیکھتا ہے ایک فرم میں شائستہ : اچھا یعنی ملا جاسکتا ہے طریقے کا بندہ ہے نا ؟ سارہ: ہاں ریزرو ہے بس فرینڈ سرکل میں ہی فرینڈلی ۔۔ شائستہ : شکر ہے مجھے ایسے ہی انسان سمجھ آتے ہیں ، سارہ : چلو ملاقات کرلو ۔۔۔۔دیکھ لو سمجھ لو ۔ شائستہ : میں اندر سے تو ہاں کر چکی مگر امی ابو کو کہا ہے مل کر فیصلہ کرونگی سارہ: جیسے تم خوش میری گُڑدیا ۔۔۔ شائستہ : سارہ ۔۔۔کتنے عرصے بعد گُڑیا کہ کر پکارا ہے سارہ: ہاں تم پر پیار بہت عرصے بعد آیا ہے اب شائستہ و یاسر ملنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔۔ ساحل کے پاس دونوں ملتے ہیں شام کے وقت ۔۔ شائستہ و یاسر کی ملاقات اچھے خوشگوار ماحول میں

کہانی قسط نمبرچار

چوتھی قسط شائستہ اپنی خالہ وماموں کی بیٹیوں کے ساتھ شاپنگ پر ہوتی ہے ، جن میں خالہ کی بیٹیاں عثمی و ثناء اور ماموں کی بیٹیان سائرہ و عارفہ ہوتے ہیں ۔۔یہ لوگ شاپنگ کرکے نکلتے ہیں کہ احسن سامنے کتاب کی دوکان پر مل جاتا ہے سائرہ کو اور پھر یہ لوگ احسن کے ساتھ گاڑی میں اپنی ادھوری شاپنگ کرنے کا رونا روتے ہیں کہ پیسے ختم ہوگئے ۔احسن جھنجلا اٹھتا ہے کہتا ہے تم سب لوگ پیسے ایسے ضائع کردیتے ہو کوئی کتاب بھی پڑھ لیا کرو مجال ہے جو ایک کتاب بھی لی ہو ۔۔سائرہ کہتی ہے جی کت اب میں خود جاکر لے لیتی ہوں جناب ۔ سب گھر پر پہنچتے ہیں تو شام کا وقت چائے کا وقت ماموں وغیرہ سب چائے پینے لگتے ہیں ۔۔ جنید یاسر کے گھر بیٹھا آفس کی جگہ اور اس کے بارے میں بیٹھا سوچ رہا ہوتا ہے یاسر: ہاں بھائی بن گیا تمھارا آفس ؟؟ جنید : یار ۔۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی جگہ یا کسی کا کوئی جان پہچان کا جاننےوالا جس کا آفس فارغ ہو ۔ یاسر: بھائی دیکھ میں زیادہ لوگوں سے نہیں ملتا جُلتا ، ہاں سارہ سے پوچھو وہ مارکیٹنگ کی بندی ہے مارکیٹ میں اسکی جان پہچان ہم سب میں زیادہ ہوگی جنید: یار مشورہ تو ٹھیک ہے میں سوچ رہا