Posts

Mohsin MinXiu #AasiaBibi #Verdict

Image

عمران خان کے نام کُھلا خط

کُھلا خط ! عمران خان صاحب سلام مہاتما عمران خان نیازی صاحب آپ الیکشن جیت گئے بائیس سالہ جدوجہد کے بعد مبارکباد مانتا ہوں ہر الیکشن سلیکشن ہی ہوتے ہیں ہمارا مزاج نہیں فری اینڈ فئیر پر مُلک گنوانا پڑا تھا ۔ آپ کی تقریر سُنی دل خوش ہوا مگر ایک طرف سب کے برابری کے حقوق کی آج کی مثال ایک طرف مدینے کی ریاست ۔ سوالات : کیا مسلمان کو کافر ہونے پر قتل کیا جائیگا یا بخش دیا جائیگا "میثاق مدینہ قانون" تحت  کیا جزیہ لیا جائیگا کافروں سے زکوة و دیگر ٹیکس نہیں ہونگیں ؟ کیا اسٹیٹ بینک پاکستان سے سود کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ مسلمان حضرات صرف شرعی زکوة وغیرہ ہی ادا کرینگے ؟ کیا صرف سید زادیاں ہی پردے کی مُستحق ٹہرینگیں ؟ کیا لونڈیاں و غلام رکھنے کی اجازت ہوگی ؟ کیا اسلامی قانون کے تحت خود کو سزا دلوائینگے کوڑوں کی بعد میں دیگر سیاسی و عسکری لیڈران کو ؟ کیا یہودی عیسائی سے مسلمان تعلیم سیکھ سکیں گے بغیر تذلیل کئے اداروں میں اُنکی ؟ کیا فقیری کرنے کی سخت ممانعت ہوگی ؟ خیر یہ سب سوالات تھے کسی کا بھی جواب دے دیں ہوسکے تو میرے مُطالبات بطور پاکستانی شہری مُلحدوں ، احمدیوں و دیگر تمام اکائیوں

"انٹرویو"

آپ کون ہیں کیا عمر ہے اور آپ کیا چاہتے ہیں ؟ میں محسن ہوں اس مُلک کا شہری آئینی طور پر ایک لکھاری ہوں ۔ آپ کہاں لکھتے ہیں یا لکھ چُکے ہیں ؟ میں مکالمہ میں لکھتا ہوں اور ملک نیوز میں لکھا ہے آپ الطاف حسین ، جبران ناصر منظور پشتیں اور بلوچتسان کی حمایت کیوں ؟ الطاف حُسین کی حمایت اسلئے کیونکہ سارے ملک میں ایک مضبوط بلدیاتی نظام کے ساتھ مزید صوبوں کی ضرورت ہے ، جبران ناصر کی اسلئے کیونکہ میں نہیں سمجھتا مذہب کے ساتھ سیاست ضروری ہے ایک احمدی ایک ہندو کو بھی اور ایک مُلحد کو بھی پاکستان میں سیاسی ۔ سماجی و معاشی آزادی حاصل ہونی چاہئیے ، منظور پشتین کو اس وجہ سے ایک عرصے سے پختون پٹی ہماری خون دیتی آئی ہے اب بس ہونی چاہئے اور انکے لاپتہ افراد کو عدالت میں لاکر بیگناہوں کو چھووڑدینا چاہئیے ، مںظور پشتیں کے مطالبے غیر آئینی نہیں مگر اب بس بہت ہوگیا انکے ساتھ اور بلوچستان کی حمایت اسلئے ضروری ہے وہ ہمیشہ ہمارا سوتیلا صوبہ رہا اب بس ہوگئی اب ضرورت ہے وہاں کے لوگوں کو کراچی و لاہور کے برابر شہری سہولتیں دی جائیں اور وہاں کے لوگوں کو سُنا جائے ، ، علیحدگی پسند بھی کبھی لاڈلے تھے

"غریب کون"

جس کے جواب کے بدلے خاموشی ہو مُفلس وہ جو اپنے کی آواز کو ترس جائے جو غریب تُم جانتی ہو کسی بھوکے کو مُفلس جو تُم مانتی ہو میں اسے غریب نہیں جانتا میں بھوکے کو مُفلس نہیں مانتا اندر سے جو خالی ہو محبت کا سوالی ہو لفظوں کا بھوکا ہو آواز کا ترسہ ہو لبوں کا پیاسہ ہو مُسکراہٹ کی خواہش ہو لمس کی چاہت ہو مگر کُچھ بھی نہ ہو پر سانسوں کی قید ہو جبر کی زندگی ہو میں ہر ایسے شخص کو مفلوک الحال مانتا ہوں اُسے میں غریب و مفلس جانتا ہوں تُم کیا سمجھو بھلا اس غرُبت کی کمائی کو جو صرف محبت جانتی ہو محبت کو خُدا مانتی ہو میں اُسے غریب کہتا ہوں اُسے نادار جانتا ہوں جو جھولی میں گرادے چند سکے لفظوں کے وہ میری جانب سے جنت کا حقدار ہے مُحبت ملے اُسے اُسکی وہ محبت کا قرضدار ہے غُربت تو یہی ہے بس مُفلسی روح بھی یہی یہ غُربت کی پہچان ہے یہ مفلس روحوں کا حال ہے محسن علی

"خواب"

میں نے نوچیں ہیں خواب آنکھوں سے میں نے ہی موت کو مارا ہے یہ زندگی اذیت ہے ایک مسلسل میں نے اسے محبت میں گزارا ہے محبت نہیں تُم کو مجھ سے جانتا ہوں  پر زندگی کا ہر پل میں نے تُم پر وارا ہے جانتا ہوں بیزار ہو تُم اس لفظ مُحبت سے مگر سچ ہے تُم نے بھی کسی کو ہارا ہے یہ وقت بڑا ستم گر ہے میری جاناں تُمھیں وقت نے مُجھے حالات نے مارا ہے یوں تو نہیں دیا تُم نے اس تعلق کو کوئی نام مگر کیا یہ سچ ہے تُم کو بھی یہ تعلق پیارا یے کہا تھا کبھی کسی روز تُم نے مُجھ سے سوچوگی اس بارے میں فی الحال دوستی پر گزارا ہے پہلے ملو مُجھ سے دیکھو مُجھے پھر ہی کوئی چارہ ہے یوں تو گزر گئے ہیں تین سال درمیان ہمارے مگر یہ دل تو محبت کا مارا ہے مُحسن علی

"آزاد"

سنو میں ایک آزاد ہوں ایک آزاد انسان ایک آزاد سوچ ایک آزاد خیال ایک نیا خواب  میں آزاد ہوں اس قدر کہ بس میں آزاد نظم کہنا چاہتا ہوں ایک بالکل آزاد نظم جس میں قافیہ ردیف مصرعے کی حد بندی ان سب کی قید سے آزاد میں چاہتا ہوں دُنیا آزاد ہوجائے ان نوحوں و سوگ سے زندگی کے روگ سے موت کے خوف سے لفظوں کی قید سے آزاد ۔۔۔بالکل آزاد۔۔۔ جہاں جسم یکساں رقص کرسکیں جہاں موسیقی کی دُھن ہو جہاں رنگوں کا پیرہن ہو جہاں نظریات کی کوئی جنگ نہ ہو جہاں نفرتوں کے رنگ نہ ہوں جہاں جھنڈوں کی یلغار نہ ہو جہاں سرحدوں پر تلوار نہ ہو جہاں زبان کے غازی سی گفتار نہ ہو ہاں آزاد بالکل آزاد مگر میں خود تُم میں قید ہوگیا ہوں خود کے دُکھ و درد سے آزاد ہوگیا ہوں لگتا ہے تُمھارے جسم میں میں اُتر چُکا ہوں میں خود سے آزاد ہوچکا ہوں آو میں تُم کو آزادی دوں ہاں آزادی ۔۔۔ہاں ۔۔آزادی مُحسن علی

"آخری الیکشن"

کہیں خاموشی سے کچُھ گولیاں آئیں میرے سینے کو چیر کر جائیں میرے لہو کو بکھیرتی جائیں ایک عُمر سے ہوں میں اذیت میں اس زندگی کی مُصیبت میں ہر سانس اب کرب دیتی ہے نفرت ہے مُجھے اس زندگی سے جو نہیں ملی مُجھے خوشی سے اس الیکشن کی رنگا رنگی میں اگررنگ جاوں میں مٹی میں تنگ نہ ہوگی پھر وہ مُجھ سے جان چھوٹے کی اُس کی مُجھ سے یوں تو خود کو میں مارسکتا ہوں کیا کروں اُس سے عہد کیا ہوں ختم نہ کرونگا میں خود کو روز مرونگا میں یوں تو روز جیونگا تُم کو اس الیکشن کو اب ہوجانے دو مُجھے زندگی سے سب کی تُم جانے دو تُمھارے لبوں کی خاموشی مُجھے روز کاٹتی ہے کس قدر مُجھ کو مُحسن علی

"مُسرت"

دوست کہتے ہیں نظم لکھو محسن پورے درد سہہ کر مُسرت بھری نظم کیسے لکھ لوں میں  وہ الفاظ وہ جذبات جو محسوس نہ کرسکوں کیسے لکھوں وہ جو میرا گماں و خیال نہیں بھلا کیسے میں ویرانی کو میں گلزار لکھوں نظم لکھوں مسرت کی ؟ منافقت کرلوں لکھنے میں مگر کیسے ۔۔ جو دل و ذہن میں نا ہو کیسے وہ لمحہ جو جیا نہیں اُسکا حق ادا کیا نہیں وہ مسرت بھری نظم میں اُسکی خوشی دیکھے بنا کیسے لکھ لوں میں ؟ مُحسن علی

"تصویر"

نظم تصویر بعد میں آئیگی ساتھ ہاں یہ نیلا رنگ کافی دنوں بعد   میں نےکسی محفل میں پہنا آج   میں بھول گیا تھا یہ میرا من پسند رنگ   ایک روز جب اُس نے بتلایا نیلا پسند ہے   بس اُس ہی ہفتے نیلے رنگ دو شرٹس لے ڈالیں   اس نیلے رنگ میں بہت گہرائی چُھپی ہے   درد کا رنگ بھی نیلا اور آسماں کا بھی   کتنی عجیب بات ہے نا یہ   نیلا سمندر بھی   اصل میں نیلا رنگ نہیں پہننا میں نے   بس اُس کو اپنے سینے سے لگالیا ہے   آخر اُس کی پسند جو ہے نیلا رنگ   تصویر نہیں یہ اصل تصویر نہیں میری یہ تو اُسکی خاموشی سے میرے درد کا عکس ہے   جو اس تصویر کی صورت آگیا ہے   چہرہ نہیں پسند اپنا اب مُجھے   جب سے اُس نے مُجھے ٹُھکرادیا ہے   بس اس نیلے رنگ میں میری مُسکراہٹ   اور   چُھپا اس میں میرا درد شائد وہ دیکھ لے   بس یہی اس تصویر میں کہنا ہے اُس سے   تُم نیلے میں آسماں کی طرح لگتی ہو       جبکہ میں نیلے میں درد کی داستان مُحسن علی

"خدایا"

دیکھو یہ آج مُجھ سے کون ملنے آیا ہے   آسماں سے اُتر کر خُدا آج خود آیا ہے   عجب ہی بات ہے وہ کُچھ   چُپ ہی آیا ہے   خُدا مُجھ سے کلام کرنے آیا ہے   میرے ہی ایک پہلو میں اُسکا ایک سایہ ہے   دیکھوں میرے سوالوں کا جواب دینے وہ آیاہے   میرا دُکھ سن کر وہ کہاں مُسکرایاہے  زندگی کی حال سُن کر وہ کہاں رو پایا ہے   میں نے جب پوچھا کیا تو ہی رب و خُدایا ہے   شش و پنج میں رہا کچھ دیر پھر بولا   کیا مُجھ سے پہلے بھی یہاں کوئی آیا ہے   بات کی مُختصر میں نے   تُو نے مُجھے   خوشی کیوں نہ دی یوں ترسایہ ہے   اُس نے کہا تیرا عشق ہی تو تیری ذات کا سایہ ہے   میں نے کہا تُو نے کہاں اُسکو میرا بنایا ہے   اُسکے دل میں کسی اور کی کیوں چھایا ہے   خُدا نے کہا میں نے ہی تو اُسے عشق کا خُدا بنایا ہے عرض کیا میں نے کیا زندگی میں میری تاریکیوں کا ہی سایہ ہے   نہیں دے سکتا مُجھے تو اگر میری خوشی   پھر جا نہیں تو میرا آج سے کوئی خُدایا ہے   لے جا ساتھ میری یہ جان یہاں سب مایا ہے   تُو بھی کس قدر بے بس اے خُدایا ہے مُحسن علی

"سمندر"

تُم نے کبھی سمندر دیکھا ہے کتنا عجیب ہے نا یہ بھی   وہ ۔۔۔۔کیسے ؟   کبھی ایک دم خاموشی   کبھی ایک دم شور   تو کبھی شوقی دکھاتا   کبھی تن بھگوتا ہوا   تو کبھی من بھگوتا ہوا   کبھی بپھرا ہوا طوفان   جیسے زندگی سے پریشان   بالکل میرے جیسا   ایک ادھوری زندگی جیسا   اور   ہاں کبھی رات کو نیلا ہوجاتا   جیسے ہجر کے درد سے نیلا ہوگیا ہو   تو میری طرح سر پٹختا رہتا ساحل پر   جیسے میں مُحبت کی دہلیز پر روز   اپنا سر پٹختا رہتا ہوں   ایک پہیلی سی ہے سمندر   اس کی گہرائی میں کیا ہے   میرے اندر کیا ہے جیسے کوئی نہیں جانتا   شائد اس کی گہرائی میں مُحبت ہے   تب ہی اس کی لہریں ساحل پر   روز یوہی سر پٹختی ہیں   شائد سکون مل جائے   کوئی سہارا مل جائے   ایک فلسفہ سمندر زندگی کا   ہاں ! شائد تُم ٹھیک کہتے ہو   ایک عجیب سکون دیتا ہے یہ سمندر   شائد ہم جیسا ہے یہ سمندر مُحسن علی

"زندگی کا سفر"

کتنا کٹھن و تھکادینے والا ہے سفر کتنا بے رنگ ہے نا جوانی سے بُڑھاپے کا سفر شادی رشتوں کا بندھن رفتہ رفتہ خود کو بدلنا پھر ایک دن اچانک خود کو بوڑھا دیکھنا محسوس ہونا رفتہ رفتہ جو آپ کا تھ ا عمر بھر اب وہ آپ سے دور ہوتا محض اسلئے اب جوبن نہیں م رد ہے تو کیا اُسکا شریر بوڑھا نہیں ہوا وہ کیوں کر اب رات باہر کاٹتا ہے کبھی رات بھر وہ مُجھ میں گُم رہا کرتا تھا کیا اب میں بُری ہوگئی ہوں کاش میرا کوئی بچہ ہوتا مگن ہوجاتی اُس میں مُجھے اب نفرت ہوتی ہے اُس کی کتابوں اور دوستوں سے مُجھے وحشت ہوتی جب وہ مجھے بھول کر چھُوتا انگاروں میں سُلگتی ہوں روز مرتی جیتی ہوں زندگی کا بے تُکاں سفر ی ہ ختم کیوں نہیں ہوتا میرا یہ بدن پھر جواں کیوں نہیں ہوتا مُحسن علی

" احساس"

Image
میرا وجود اتنا ادھورا نا مکمل  جیسے بنجر زمین کوئی غیر متوازن سی جہاں پر نہ قبر بن سکتی نہ زندگی بس سکتی نہ برسات کا پانی گرتا نہ تنہائی کا وجود نہ کسی پرچھائی کا ایسی زمین جہاں گدھ بھی گند نہ کرسکیں نہ بدبو پیدا ہوتی کہ خوشبو کا امکان ہو نہ مکان بسا سکتا سائل ایک ایسی زمین جس کو خُدا نے بنا کر اپنانے سے ہی منہ موڑ لیا ہو اُس زمین پر چند خاموش پتھر جن کے الفاظوں سے زمین کی گرد ہوا میں اُڑ کر خوشی کا احساس کرتی ہے اور وہ صدیوں سے پتھروں کی خاموشی کو بھی حسرت سے دیکھتی شائد کبھی ان میں کوئی زندگی پیدا ہو شائد مُجھ میں کیڑے مکوڑے سانپ بچھو ہی یا کوئی مخلوق جنم لے کہ اتنے میں آوازِ خُدا آتی ہے تُم میری کائنات کا بدترین نظارہ ہو جو مُجھے خود بھی گوارہ نہیں گزرتا لہذا اپنی اُمیدیں چھوڑ دو ورنہ مٹی کے ذرات بھی لے لونگا تُم سے یہ خاموش پتھر و زبان بھی یوم محشر بھی کائنات میں سے بس تُمھیں یہی چھوڑدونگا نہ جہنم جلوگی تُم نہ جنت تُم میری خُدائی کی سب سے بدتر صورت ہو تُم فقط رُسوا و ذلت ہو ر

"علامت "

Image
علامت  محبت کی یا  پھر ہوس کی  یہ کیا جذبہ یے  ہر وقت محسوس کرنا  مگر جنس کی طلب  نہ ہونا کیوں  محبت جنس یے  کیا ایساہے ؟   پھر بس مُجھے  فقط اس کا لمس  محسوس کرنے کو  چھوٹی چھوٹی باتوں پر  بس اسکو گلے لگانے کا جی کرتا ہے   چہرے پر ہاتھ پھیرنے کو  زُلف سنوارنے کو  دل کرتا ہے مگر بس کبھی بھی  یہ خیال نہ آیا مُجھے  میں وہ روحوں کو کبھی  جسموں میں ڈبوئیں  دل کرتا ہے مگر یہ وہ خود سونپے مُجھے  ہاں اکثر میں  خیالوں کی دُنیا میں  میں اُس کے رُخساروں پر  اُسکے پاس آتے ہی  آنکھیں بند کرتے ہی  لبوں پر بوسہ لے لیتا ہوں  اور   وہ مُسکرا کر پاگل کہ کر  مُجھے چلی جاتی ہے  یہ کہتے محسن   تُم  دیوانے ہو  پرمحبت  میری ہو  محسن علی

"ہم سب یہاں کیوں ہیں "

Image
ہم سب یہاں کیوں ہیں  کیا ہیں کس وجہ سے   ہمیں نہیں معلوم مگر   ہمیں معلوم بِھی ہو تو   کیسے ہم نےخود کو جاننا   ہی کہاں ، پہچانا ہی کہاں   ہم دلیل سے ثابت کریں   تو کیسے وجود سے اپنے   کہ سب محض ایک فکشن   کی طرح ہیں جو ہیں بھی   پل میں اور نہیں بھی ارے   وہ کیسے کہ سکتے ہو بھلا تُم   تم کو مُجھ سے مکالمہ کرنا پڑیگا   اپنے وجود کا حال احوال بتانے کو   اپنی دانش استعمال کرنی ہوگی   لکھاری کو سمجھنا ہوگا تم کو   مگر یہ سب کرتے تو مجھے   ایک عرصہ لگے گا   بس جب تُم خود کلامی کروگے   تو خود سے آشنا ہوجاوگے   اور پھر اپنے ہونے کی دلیل دوگے   تُمھارے و میرے ہونے کی دلیل   یا ہم سب کے ہونے کی دلیل   بس اتنی ہے کہ وجود تسلیم ہو   یہ میرے و تمھارے ہونے کی دلیل ہے   اور نہ ہونے کی دلیل یہ کہ ہم سب   مٹی میں مل جائینگے ہاں   ہم سب رائیگاں ہوجائینگے   یہی سچ ہے بس یہی حقیقت ہے   یہ حقیقت زندگی کا رنگ ہے   موت ہی ہے جس پر   ہماری عقلیں دنگ ہیں   محسن علی

تُم کہتے ہو میں مر کیوں نہیں جاتا ؟

Image
تُم کہتے ہو میں مر کیوں نہیں جاتا ؟   میں تو روز مرتا ہوں ۔۔۔ تماشہ روز لگتا ہے   میرے جذبات کو پاگل پن کہا جاتا ہے   میں تو روز مرتا ہوں   تُم کو نہیں دکھتا   تُمھاری خاموشی یہ مُجھ پر   مُسلسل قبر کی مٹی کی مانند   مُجھ پر سارے وقت گرتی ہے   میں روز مرتا ہوں   اذیت میں سانس لیتا ہوں   تُم کو کیوں نہیں دکھتا   ہاں میرے الفاظ ہیں بہت   مُجھے روز تھکاتے ہیں   قلم سے خون تھوکواتے ہیں   تُم کو کیوں نہیں دکھتا ؟   میں روز مرتا ہوں ۔۔۔ تُجھے پانے کی چاہ میں   میں روز جی اُٹھتا ہوں   اور   پھر روز مرتا ہوں   چند سانسیں ہیں   جو میرے جسم میں قید   میں ان سے روز لڑتا ہوں   تُم کیوں نہیں دکھتا ؟   میں تو روز مرتا ہوں مُحسن علی

"الفاظ "

Image
مُجھے خوشی لکھنی ہے   اپنےغم دے دو نہ تُم مُجھے رنگ لکھنے ہیں   مرے سنگ چل لو نا تُم مُجھے خوشبو لکھنا ہے   اپنا وجود دے دو نا تُم مُجھے وصل لکھنا ہے   میرا ہجرختم کردو تُم مُجھے گُلاب لکھنا ہے   اپنا آپ دے دو تُم مُجھے مکمل لکھنا ہے   میری تکمیل کردو تُم مُجھے کتاب لکھنی ہے   اپنے الفاظ دے دو تم محسن علی

"مُسافت دو قدم کی "

"مُسافت دو قدم کی " وہ بہت خوش پرجوش تھا رات سے جانے کو ملنے کو بے تاب وہ اس دن کا گزشتہ مُلاقات کے بعد سے انتظار کرہا تھا گزشتہ ماہ بھی اُس نے کوشش کی مگر ناکام اب کی بار وہ ایسے خوش تھا جیسے پہلی بار زندگی میں لڑکی دیکھے گا یا لڑکی سے ملے گا وہ صبح نکلتے ہوئے تک میسیج چھوڑتا ہے اُس کے پاس مگر جواب نہیں آتا وہ پھر بھی یہ سوچ کے چلا جاتا ہے تین چار دن سے کہ رہا ہوں وہ مل لے گی شائد وہ طویل تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے اُس تک پہنچ جاتا ہے بے پناہ رش ہوتا ہے اُس جگی جیسے جمعہ بازار ہو ۔ وہ بڑے وثوق سے کال کرتا ہے جواب ملتا ہے پوچھا تھا آنے سے پہلے اُس کے سارے جذبات ٹھنڈے برف کی طرح جم جاتے ہیں الفاظ مشکل سے ادا کرکے کہتا ہے اچھا میں چلتا ہوں معذرت ۔۔۔چار قدم لیتا ہے ۔ کال آتی ہے وہ ہڑبڑا کے اٹھاتا ہے رُکو دو منٹ آو ۔۔وہ دروازے سے دیکھ کر مطمعین ہوتا ہے کچھ مگر ہوائیاں اُڑی ہوتی ہیں وہ آتی ہے ۔ آپ کو اپنے سوا کچھ دکھتا ہے بس اپنا کہا دوسرے کی مجبوری کا احساس نہیں ۔ وہ ایک لمحے گڑھ جاتا ہے جیسے زمین میں وہ مشکل سے خود کو سنبھال کر جی یہ لے لیں ۔۔نہیں سمجھیں آپ میری بات کو ۔۔۔۔و

"خوش"

Image
میں اب تنہا ہوں   اور خوش ہوں   ہاں الُجھا ہوں   میں خوش ہوں   تُم ہو مُجھ میں   میں خوش ہوں   نہیں ملنا کسی سے   میں خوش ہوں   تُم نہیں پاس مگر   میں خوش ہوں   نہ ہےکوئی سوال   میں خوش ہوں   نہ دینا کوئی جواب   میں خوش ہوں   یار، دوست کیا احباب   اب پوچھتا نہیں کوئی بھی حال   میں خوش ہوں   تُم ہی ہو ہر خیال   میں خوش ہوں   بس ایک ہی ہے ملال   نہیں ممکن وصل یار   میں خوش ہوں تؐم کرتی ہو بیقرار میں خوش ہوں میرے قلم و الفاظ   میں خوش ہوں   ٹوٹے پھوٹے جذبات   میں خوش ہوں   مرتا ہوں میں   روز ہزار بار   میں خوش ہوں محسن علی

" تنہا"

Image
میں اکیلا بھی ہوں   اور تن تنہا بھی   کمرے میں تنہا ہوں کھانے پر تنہا ہوں   محفل میں تنہا   تصویروں میں بھی   برسات کے دن ہوں   یا کوئی بھی موسم   میں بس تنہا ہوتا ہوں   گرم دن ہوں یا پھر   سردیوں کی چائے   میں تنہا ہی لیتا ہوں   اب کسی رشتے کی کمی   نہیں تنگ کرتی مُجھے   میں تنہا ہوتا ہوں   بس ایک تُمھاری کمی   محسوس ہوتی ہے   مگر میں تنہا ہوتا ہوں   رات اشک میں ڈوبی   اور میں تنہا ہوتا ہوں   ایک تنہائی ہوتی ہے   میں بس تنہا ہوتا ہوں محسن علی