" ڈر"



ہر رشتہ ناطے سے ڈر لگتا ہے 
اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے
قلم نکالوں میں اب خود تو 
خود اپنے الفاظوں سے ڈر لگتا ہے 
سپاہی دیکھوں یا ڈاکوں کوئی 
مُجھے سب بندوقوں سے ڈر لگتا ہے 
کوئی بچہ دیکھوں راہ چلتے میں
رو نہ جائے کہیں مُجھے آنسووں سے ڈر لگتا ہے 
دیکھوں بچی کوئی پیاری جاتی
مُجھے اُس کے ریپ کا ڈر لگتا ہے 
کوئی سایہ جو ٹکرائے میرے سائے سے 
مُجھے اب ہر سائے سے ڈر لگتا ہے 
گھر کا کمرہ ہو یا چار دیواری اب 
مُجھے در و دیوار سے ڈرلگتا ہے 
محسن علی

Comments

Popular posts from this blog

Chief Of Army Statement A Clear message..(2012)

14 December (2012) Historical and Other side..???

"حقیقت ِزندگی کے رنگ" 6